باب: صدقہ فطر کا مسلمانوں پر یہاں تک کہ غلام لونڈی پر بھی فرض ہے
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Sadaqat-ul-Fitr on the free or slave Muslims)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1520.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان پر، وہ غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یاعورت، ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو بطور صدقہ فطر فرض کیا۔
تشریح:
(1) غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر واجب ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کی طرف سے مالک صدقہ دے گا جیسا کہ ایک روایت میں چھوٹے بچے پر صدقہ فطر واجب ہونے کا ذکر ہے، لیکن اس کی طرف سے اس کا سرپرست ادا کرتا ہے۔ (2) واضح رہے کہ من المسلمين کے اضافے کو امام مالک کے تمام شاگرد بیان کرتے ہیں، البتہ قتیبہ بن سعید اس کا ذکر نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فطرانے کے وجوب کے لیے اسلام شرط ہے، اس کا تقاضا ہے کہ کافر پر اس کا ادا کرنا ضروری نہیں۔ (3) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مسلمان آقا اپنے کافر غلام کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے کا پابند ہے یا نہیں؟ جمہور کا موقف ہے کہ کافر غلام کی طرف سے فطرانہ ادا نہیں کیا جائے گا، البتہ احناف نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آقا کو اپنے کافر غلام کا فطرانہ ادا کرنا ہو گا، لیکن یہ موقف محل نظر ہے، البتہ راوی حدیث حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے فطرانہ ادا کرتے تھے وہ آزاد ہوں یا غلام، چھوٹے ہوں یا بڑے، مسلمان غلام ہوں یا کافر۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ وہ بطور نفل ایسا کرتے تھے اور اس پر کوئی پابندی نہیں۔ (فتح الباري:467/3) رسول اللہ ﷺ نے ہر شخص کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے جس کی کفالت اس کے ذمے ہے، خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، آزاد ہو یا غلام۔ (سنن الدارقطني:14/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1465
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1504
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1504
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1504
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان پر، وہ غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یاعورت، ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو بطور صدقہ فطر فرض کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر واجب ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کی طرف سے مالک صدقہ دے گا جیسا کہ ایک روایت میں چھوٹے بچے پر صدقہ فطر واجب ہونے کا ذکر ہے، لیکن اس کی طرف سے اس کا سرپرست ادا کرتا ہے۔ (2) واضح رہے کہ من المسلمين کے اضافے کو امام مالک کے تمام شاگرد بیان کرتے ہیں، البتہ قتیبہ بن سعید اس کا ذکر نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فطرانے کے وجوب کے لیے اسلام شرط ہے، اس کا تقاضا ہے کہ کافر پر اس کا ادا کرنا ضروری نہیں۔ (3) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مسلمان آقا اپنے کافر غلام کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے کا پابند ہے یا نہیں؟ جمہور کا موقف ہے کہ کافر غلام کی طرف سے فطرانہ ادا نہیں کیا جائے گا، البتہ احناف نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آقا کو اپنے کافر غلام کا فطرانہ ادا کرنا ہو گا، لیکن یہ موقف محل نظر ہے، البتہ راوی حدیث حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے فطرانہ ادا کرتے تھے وہ آزاد ہوں یا غلام، چھوٹے ہوں یا بڑے، مسلمان غلام ہوں یا کافر۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ وہ بطور نفل ایسا کرتے تھے اور اس پر کوئی پابندی نہیں۔ (فتح الباري:467/3) رسول اللہ ﷺ نے ہر شخص کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے جس کی کفالت اس کے ذمے ہے، خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، آزاد ہو یا غلام۔ (سنن الدارقطني:14/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں نافع نے ‘ اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ آزاد یا غلام ‘ مرد یا عورت تمام مسلمانوں پر ایک صاع کھجور یا جو فرض کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر فرض ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کا مالک ان کی طرف سے صدقہ دے۔ بعضوں نے کہا کہ یہ صدقہ پہلے غلام لونڈی پر فرض ہوتا ہے پھر مالک ان کی طرف سے اپنے اوپر اٹھالیتا ہے۔ ( وحیدی ) صدقہ فطرکی فرضیت یہاں تک ہے کہ یہ اس پر بھی فرض ہے جس کے پاس ایک روز کی خوراک سے زائد غلہ یا کھانے کی چیز موجود ہے۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: «صَاعٌ مِنْ بُرٍّ، أَوْ قَمْحٍ عَلَى كُلِّ اثْنَيْنِ صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ، حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، أَمَّا غَنِيُّكُمْ فَيُزَكِّيهِ اللَّهُ، وَأَمَّا فَقِيرُكُمْ، فَيَرُدُّ اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَى»(أبوداود)یعنی ایک صاع گیہوں چھوٹے بڑے دونوں آدمیوں آزاد غلام مرد عورت کی طرف سے نکالا جائے اس صدقہ کی وجہ سے اللہ پاک مالدار کو گناہوں سے پاک کردے گا ( اس کا روزہ پاک ہوجائے گا ) اور غریب کو اس سے بھی زیادہ دے گا جتنا کہ اس نے دیا ہے۔ صاع سے مراد صاع حجازی ہے جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں مروج تھا‘ نہ صاع عراقی مراد ہے۔ صاع حجازی کا وزن اسی تولے کے سیر کے حساب سے پونے تین سیر کے قریب ہوتا ہے، حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث ؒ فرماتے ہیں:وهو خمسة أرطال وثلث رطل بالبغدادي، ويقال له: الصاع الحجازي؛ لأنه كان مستعملا في بلاد الحجاز، وهو الصاع الذي كان مستعملاً في زمن النبي - صلى الله عليه وسلم -، وبه كانوا يخرجون صدقة الفطر. وزكاة المعشرات وغيرهما من الحقوق الواجبة المقدرة في عهد النبي - صلى الله عليه وسلم -، وبه قال مالك والشافعي وأحمد وأبويوسف وعلماء الحجاز. وقال أبوحنيفة ومحمد. بالصاع العراقي، وهو ثمانية أرطال بالرطل المذكور. وإنما قيل له العراقي، لأنه كان مستعملاً في بلاد العراق، وهو الذي يقال له الصاع الحجاجي؛ لأنه أبرزة الحجاج الوالي، وكان أبويوسف يقول كقول أبي حنيفة ثم رجع إلى قول الجمهور، لما تناظر مع مالك بالمدينة فأراه الصيعان التي توراثها أهل المدينة عن إسلافهم من زمن النبي - صلى الله عليه وسلم۔ ( مرعاۃ ج 3 ص 93 ) صاع کا وزن 5 رطل اور ثلث رطل بغدادی ہے، اسی کو صاع حجازی کہا جاتا ہے جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں حجاز میں مروج تھا۔ اور عہد رسالت میں صدقہ فطر اور عشر کا غلہ اور دیگر حقوق واجبہ بصورت اجناس اسی صاع سے وزن کرکے ادا کئے جاتے تھے۔ امام مالک ؒ اور امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ اور امام ابویوسف ؒ اور علماء حجاز کا یہی قول ہے۔ اور امام ابوحنیفہ ؒ اور امام محمد ؒ صاع عراقی مراد لیتے ہیں۔ جو بلاد عراق میں مروج تھا۔ جسے صاع حجاجی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا وزن آٹھ رطل مذکور کے برابر ہوتا ہے امام ابویوسف ؒ بھی اپنے استاد گرامی امام ابوحنیفہ ؒ ہی کے قول پر فتویٰ دیتے تھے مگر جب آپ مدینہ تشریف لائے اور اس بارے میں امام المدینہ امام مالک ؒ سے تبادلہ خیال فرمایا تو امام مالک ؒ نے مدینہ کے بہت سے پرانے صاع جمع کرائے۔ جو اہل مدینہ کو زمانہ رسالت ماب ﷺ سے بطور وراثت ملے تھے اور جن کا عہد نبوی میں رواج تھا، ان کا وزن کیا گیا تو 5 رطل ثلث بغدادی نکلا۔ چنانچہ حضرت امام ابویوسف ؒ نے اس بارے میں قول جمہور کی طرف رجوع فرمالیا۔ صاع حجاجی اس لیے کہا گیا کہ اسے حجاج والی نے جاری کیاتھا۔ حساب بالا کی رو سے صاع حجازی کا وزن 234 تو لہ ہوتا ہے جس کے 6 تولہ کم تین سیر بنتے ہیں جو اسی ( 80 ) تولہ والے سیر کے مطابق ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) made it incumbent on all the slave or free Muslims, male or female, to pay one Sa' of dates or barley as Zakat-ul-Fitr.