تشریح:
(1) حضرت ابراہیم نخعی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے جو احرام پہنتے وقت خوشبو سے پرہیز کیا اور بغیر خوشبو کے سادہ زیتون کا تیل استعمال کیا تو ہمیں ان کے فعل سے کوئی غرض نہیں جبکہ ان کے عمل کے خلاف رسول اللہ ﷺ کا عمل موجود ہے جسے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ احرام باندھتے وقت رسول اللہ ﷺ نے خوشبو لگائی یہاں تک کہ احرام کے بعد بھی اس کے اثرات آپ کی مانگ میں موجود تھے۔ (2) اس سلسلے میں سعید بن منصور نے اپنی جامع میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا موقف تھا کہ احرام کے وقت خوشبو لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عمر ؒ کہتے ہیں کہ میں اپنے باپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس وقت میں نے حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک آدمی بھیجا، میں چاہتا تھا کہ میرے والد محترم کو بھی حضرت عائشہ ؓ کے موقف کا پتہ چل جائے، چنانچہ میرا قاصد والد محترم کی موجودگی میں آیا اور حضرت عائشہ ؓ کا موقف ان کے گوش گزار کر دیا۔ میرے والد گرامی کہتے تھے: احرام کے وقت خوشبو استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ جب انہیں حضرت عائشہ کے موقف کا پتہ چلا تو خاموش رہے۔ اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ اسی طرح حضرت سالم بن عبداللہ بھی اپنے باپ حضرت عبداللہ ؓ اور دادے حضرت عمر ؓ کی اس سلسلے میں مخالفت کرتے تھے کیونکہ انہیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث پہنچ چکی تھی اور وہ فرماتے تھے: رسول اللہ ﷺ کی سنت کی اتباع زیادہ مقدم ہے۔ (فتح الباري:501/3) اس واقعے سے مقلدین کو سبق لینا چاہیے جو حدیث نبوی کے مقابلے میں اپنے امام کی بات پر کاربند رہتے ہیں۔