تشریح:
(1) تلبیہ کی مشروعیت میں حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عزت افزائی کرتا ہے جبکہ اس نے انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور وہ بحیثیت وفد مہمان بن کر حاضر ہوتے ہیں۔ (فتح الباري:516/3) (2) تلبیہ کا مطلب حضرت ابراہیم ؑ کی دعوت پر لبیک کہنا ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہیں حکم دیا گیا کہ اب لوگوں میں اس گھر کے حج کا اعلان کرو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے عرض کی: یا اللہ! روئے زمین پر میری آواز کیسے پہنچے گی؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اعلان کرنا تیرا کام اور لوگوں تک اس کا پہنچانا میری ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے بایں الفاظ اعلان کیا: اے لوگو! بیت عتیق کا حج کرنا تم پر فرض کر دیا گیا ہے۔ اس اعلان کو زمین و آسمان میں رہنے والے تمام لوگوں نے سنا۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ زمین کے اطراف و اکناف سے لوگ تلبیہ کہتے ہوئے بیت اللہ حاضر ہوتے ہیں۔ (المستدرك للحاكم:388/2، اس روایت کی سند میں کلام ہے۔) ایک روایت میں ہے کہ جس نے حضرت ابراہیم ؑ کی آواز پر لبیک کہا: وہ ضرور بیت اللہ کا حج کرے گا۔ (فتح الباري:516/3) اس روایت کی سند میں بھی محل نظر ہے۔) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ تلبیہ کے الفاظ میں اضافہ کرنا جائز ہے، تاہم رسول اللہ ﷺ کے تلبیہ پر اکتفا کرنا بہتر ہے۔ (3) ابو معاویہ کی متابعت کو امام مسدد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح شعبہ کی روایت کو ابوداود طیالسی نے بیان کیا ہے، اس روایت میں لَا شَرِيكَ لَكَ کے الفاظ نہیں ہیں۔ امام بخاری ؒ نے ابو عطیہ کا حضرت عائشہ ؓ سے سماع ثابت کرنے کے لیے یہ روایت بیان کی ہے۔ (فتح الباري:518/3)