باب: احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانا اور احرام کے ارادہ کے وقت کیا پہننا چاہئے اور کنگھا کرے اور تیل لگائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The use of perfume while assuming Ihram)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن عباسؓ نے فرمایا کہ محرم خوشبودار پھول سونگھ سکتا ہے۔ اسی طرح آئینہ دیکھ سکتا ہے اور ان چیزوں کو جو کھائی جاتی ہیں بطور دوا بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ مثلاً زیتون کا تیل اور گھی وغیرہ۔ اور عطاء نے فرمایا کہ محرم انگوٹھی پہن سکتا ہے اور ہمیانی باندھ سکتا ہے۔ ابن عمر ؓ نے طواف کیا اس وقت آپ محرم تھے لیکن پیٹ پر ایک کپڑا باندھا رکھا تھا۔ عائشہ ؓ نے جانگئے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری) نے کہا کہ عائشہ ؓ کی مراد اس حکم سے ان لوگوں کے لیے تھی جو ان کے ہودج کو اونٹ پر کسا کرتے تھے۔اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا ہے ۔ دارقطنی کی روایت میں یوں ہے اور حمام میں جا سکتا ہے اور داڑھ میں درد ہو تو اکھاڑ سکتا ہے پھوڑا پھوڑ سکتا ہے‘ اگر ناخن ٹوٹ گیا ہو تو اتنا ٹکڑا نکال سکتا ہے ۔ جمہور علماء کے نزدیک احرام میں جانگنا پہننا درست نہیں کیونکہ یہ پاجامہ ہی کے حکم میں ہے۔
1554.
مجھے حضرت اسود نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: گویا میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں، حالانکہ آپ محرم تھے۔
تشریح:
(1) حضرت ابراہیم نخعی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے جو احرام پہنتے وقت خوشبو سے پرہیز کیا اور بغیر خوشبو کے سادہ زیتون کا تیل استعمال کیا تو ہمیں ان کے فعل سے کوئی غرض نہیں جبکہ ان کے عمل کے خلاف رسول اللہ ﷺ کا عمل موجود ہے جسے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ احرام باندھتے وقت رسول اللہ ﷺ نے خوشبو لگائی یہاں تک کہ احرام کے بعد بھی اس کے اثرات آپ کی مانگ میں موجود تھے۔ (2) اس سلسلے میں سعید بن منصور نے اپنی جامع میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا موقف تھا کہ احرام کے وقت خوشبو لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عمر ؒ کہتے ہیں کہ میں اپنے باپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس وقت میں نے حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک آدمی بھیجا، میں چاہتا تھا کہ میرے والد محترم کو بھی حضرت عائشہ ؓ کے موقف کا پتہ چل جائے، چنانچہ میرا قاصد والد محترم کی موجودگی میں آیا اور حضرت عائشہ ؓ کا موقف ان کے گوش گزار کر دیا۔ میرے والد گرامی کہتے تھے: احرام کے وقت خوشبو استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ جب انہیں حضرت عائشہ کے موقف کا پتہ چلا تو خاموش رہے۔ اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ اسی طرح حضرت سالم بن عبداللہ بھی اپنے باپ حضرت عبداللہ ؓ اور دادے حضرت عمر ؓ کی اس سلسلے میں مخالفت کرتے تھے کیونکہ انہیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث پہنچ چکی تھی اور وہ فرماتے تھے: رسول اللہ ﷺ کی سنت کی اتباع زیادہ مقدم ہے۔ (فتح الباري:501/3) اس واقعے سے مقلدین کو سبق لینا چاہیے جو حدیث نبوی کے مقابلے میں اپنے امام کی بات پر کاربند رہتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1498.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1538
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1538
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1538
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
خوشبو کی چند اقسام ہیں: ایک یہ ہے کہ اس میں زعفران یا ورس کی ملاوٹ ہوتی ہے اور اسے عام طور پر عورتیں استعمال کرتی ہیں۔ یہ خوشبو مردوں کے لیے کسی حالت میں جائز نہیں، خواہ احرام سے پہلے ہو یا بعد میں۔ دوسری قسم کی خوشبو وہ ہے جس میں کسی چیز کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ اس کے استعمال کی دو صورتیں ہیں: ٭ احرام سے پہلے، اسے محرم آدمی احرام سے پہلے استعمال کر سکتا ہے اگرچہ اس کے اثرات بھی موجود رہیں۔ ٭ احرام کے بعد اسے استعمال کرنا درست نہیں۔ تیسری قسم کی وہ خوشبو ہے جسے وقتی طور پر سونگھا جا سکتا ہے، جیسے پھول وغیرہ۔ انہیں دوران احرام میں بھی سونگھنے کی اجازت ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ نقل کیا ہے جسے ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ، ح: 14600 طبعہ مکتبۃ الرشد، الریاض) معجم اوسط میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی اس قسم کا فتویٰ مروی ہے۔ آئینہ دیکھنے کی اجازت کو سفیان ثوری نے اپنی جامع میں بیان کیا ہے۔ ماکولات اور مشروبات کو بطور دوا استعمال کرنا مصنف ابن ابی شیبہ میں متصل سند سے بیان ہوا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر محرم کے ہاتھ پھٹ جائیں تو زخموں پر زیتون کا تیل یا گھی لگا سکتا ہے۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ اس قسم کے آثار کے ذریعے سے حضرت مجاہد کی تردید کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ان کا استعمال ممنوعات احرام سے ہے۔ حضرت عطاء بن ابی رباح کے اثر کو دارقطنی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو امام شافعی نے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:3/500) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے غلاموں کو ستر کھل جانے کے خدشے کے پیش نظر احرام کے نیچے جانگیا پہننے کی اجازت دی لیکن اس سے دوسروں نے اتفاق نہیں کیا۔ ان کے نزدیک شلوار اور جانگھیے میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے۔ (فتح الباری:3/501)
اور ابن عباسؓ نے فرمایا کہ محرم خوشبودار پھول سونگھ سکتا ہے۔ اسی طرح آئینہ دیکھ سکتا ہے اور ان چیزوں کو جو کھائی جاتی ہیں بطور دوا بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ مثلاً زیتون کا تیل اور گھی وغیرہ۔ اور عطاء نے فرمایا کہ محرم انگوٹھی پہن سکتا ہے اور ہمیانی باندھ سکتا ہے۔ ابن عمر ؓ نے طواف کیا اس وقت آپ محرم تھے لیکن پیٹ پر ایک کپڑا باندھا رکھا تھا۔ عائشہ ؓ نے جانگئے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری) نے کہا کہ عائشہ ؓ کی مراد اس حکم سے ان لوگوں کے لیے تھی جو ان کے ہودج کو اونٹ پر کسا کرتے تھے۔اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا ہے ۔ دارقطنی کی روایت میں یوں ہے اور حمام میں جا سکتا ہے اور داڑھ میں درد ہو تو اکھاڑ سکتا ہے پھوڑا پھوڑ سکتا ہے‘ اگر ناخن ٹوٹ گیا ہو تو اتنا ٹکڑا نکال سکتا ہے ۔ جمہور علماء کے نزدیک احرام میں جانگنا پہننا درست نہیں کیونکہ یہ پاجامہ ہی کے حکم میں ہے۔
حدیث ترجمہ:
مجھے حضرت اسود نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: گویا میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں، حالانکہ آپ محرم تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابراہیم نخعی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے جو احرام پہنتے وقت خوشبو سے پرہیز کیا اور بغیر خوشبو کے سادہ زیتون کا تیل استعمال کیا تو ہمیں ان کے فعل سے کوئی غرض نہیں جبکہ ان کے عمل کے خلاف رسول اللہ ﷺ کا عمل موجود ہے جسے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ احرام باندھتے وقت رسول اللہ ﷺ نے خوشبو لگائی یہاں تک کہ احرام کے بعد بھی اس کے اثرات آپ کی مانگ میں موجود تھے۔ (2) اس سلسلے میں سعید بن منصور نے اپنی جامع میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا موقف تھا کہ احرام کے وقت خوشبو لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عمر ؒ کہتے ہیں کہ میں اپنے باپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس وقت میں نے حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک آدمی بھیجا، میں چاہتا تھا کہ میرے والد محترم کو بھی حضرت عائشہ ؓ کے موقف کا پتہ چل جائے، چنانچہ میرا قاصد والد محترم کی موجودگی میں آیا اور حضرت عائشہ ؓ کا موقف ان کے گوش گزار کر دیا۔ میرے والد گرامی کہتے تھے: احرام کے وقت خوشبو استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ جب انہیں حضرت عائشہ کے موقف کا پتہ چلا تو خاموش رہے۔ اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ اسی طرح حضرت سالم بن عبداللہ بھی اپنے باپ حضرت عبداللہ ؓ اور دادے حضرت عمر ؓ کی اس سلسلے میں مخالفت کرتے تھے کیونکہ انہیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث پہنچ چکی تھی اور وہ فرماتے تھے: رسول اللہ ﷺ کی سنت کی اتباع زیادہ مقدم ہے۔ (فتح الباري:501/3) اس واقعے سے مقلدین کو سبق لینا چاہیے جو حدیث نبوی کے مقابلے میں اپنے امام کی بات پر کاربند رہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: محرم خوشبو سونگھ سکتا ہے اور آئینہ بھی دیکھ سکتا ہے اور کھانے کی چیزوں، مثلاً: تیل اور گھی کو بطور دوااستعمال کرسکتا ہے۔
اور عطاء نے کہا کہ محرم انگوٹھی پہن سکتا ہے اور ہمیانی باندھ سکتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بحالت احرام طواف کیا، انھوں نے اپنے پیٹ پر کپڑا باندھ رکھا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان لوگوں کے لیے بحالت احرام جانگھیا پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں خیال کیا جو آپ کا ہودج اونٹ پر رکھا کرتے تھے۔
وضاحت: ۔
خوشبو کی چند اقسام ہیں ایک یہ ہے کہ اس میں زعفران یا ورس کی ملاوٹ ہوتی ہے اور اسے عام طور پر عورتیں استعمال کرتی ہیں۔ یہ خوشبو مردوں کے لیے کسی حالت میں جائز نہیں ہے خواہ احرام سے پہلے ہو یا بعد میں۔ دوسری قسم کی وہ خوشبو ہے جس میں کسی چیز کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ اس کے استعمال کی دوصورتیں ہیں۔ احرام باندھنے سے پہلے اسے آدمی استعمال کرسکتا ہے اگرچہ اس کے اثرات احرام کے بعد بھی موجود رہیں احرام کے بعد اسے استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ تیسری قسم کی وہ خوشبو ہے جسے وقتی طور پر سونگھا جا سکتا ہے۔ جیسے پھول وغیرہ انھیں دوران احرام میں بھی سونگھنے کی اجازت ہے۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے تو اسود نے بیان کیا، اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ محرم ہیں اور گویا میں آپ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حدیث حاشیہ:
ابراہیم نخعی کامطلب یہ ہے کہ ابن عمر نے جو احرام لگاتے وقت خوشبو سے پرہیز کیا اور سادہ بغیر خوشبو کا تیل ڈالا تو ہمیں اس فعل سے کوئی غرض نہیں جب آنحضرت ﷺ کی حدیث موجود ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احرام باندھتے وقت آپ نے خوشبو لگائی۔ یہاں تک کہ احرام کے بعد بھی اس کا اثر آپ کی مانگ میں رہا۔ اس روایت سے حنفیہ کو سبق لیناچاہئے۔ ابراہیم نخعی حضرت امام ابو حنیفہ کے استاذ الاستاذ ہیں انہوں نے حدیث کے خلاف ابن عمر ؓ کا قول وفعل رد کردیا تواور کس مجتہد اور فقیہ کا قول حدیث کے خلاف کب قابل قبول ہوگیا (مولانا وحید الزماں مرحوم) اس مقام پر حدیث نبوی لَوکانَ مُوسیٰ حَیا واتبعتموہ الخ بھی یاد رکھنی ضروری ہے۔ یعنی آپ نے فرمایا کہ اگر آج موسیٰ ؑ زندہ ہوں اور تم میرے خلاف ان کی اتباع کرنے لگو تو تم سیدھے راستے سے گمراہ ہوجاؤ گے مگر مقلدین کا حال اس قدر عجیب ہے کہ وہ اپنے اماموں کی محبت میں نہ قرآن کو قابل غور گر دانتے ہیں نہ احادیث کو۔ ان کا آخری جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم کو قول امام بس ہے۔ ایسے مقلدین جامد کے لئے حضرت امام مہدی ؑ ہی شاید راہنما بن سکیں ورنہ سراسر نا امیدی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aswad from ' Aisha (RA): As if I were now observing the glitter of the scent in the parting of the hair of the Prophet (ﷺ) while he was Muhrim?"