قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابٌ: كَيْفَ تُهِلُّ الحَائِضُ وَالنُّفَسَاءُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: أَهَلَّ: تَكَلَّمَ بِهِ، وَاسْتَهْلَلْنَا وَأَهْلَلْنَا الهِلاَلَ، كُلُّهُ مِنَ الظُّهُورِ، وَاسْتَهَلَّ المَطَرُ خَرَجَ مِنَ السَّحَابِ، {وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ} [المائدة: 3] وَهُوَ مِنَ اسْتِهْلاَلِ الصَّبِيِّ

1556. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَةِ ثُمَّ لَا يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا فَقَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ وَدَعِي الْعُمْرَةَ فَفَعَلْتُ فَلَمَّا قَضَيْنَا الْحَجَّ أَرْسَلَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرْتُ فَقَالَ هَذِهِ مَكَانَ عُمْرَتِكِ قَالَتْ فَطَافَ الَّذِينَ كَانُوا أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ حَلُّوا ثُمَّ طَافُوا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى وَأَمَّا الَّذِينَ جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ عرب لوگ کہتے ہیں «أهل» یعنی بات منہ سے نکال دی «واستهللنا وأهللنا الهلال» ان سب سے لفظوں کا معنی ظاہر ہونا ہے اور «واستهل المطر» معنی پانی ابر میں سے نکلا۔ اور قرآن شریف (سورۃ المائدہ) میں جو «وما أهل لغير الله به‏» ہے اس کے معنی جس جانور پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے اور بچہ کے «استهلال» سے نکلا ہے۔ یعنی پیدا ہوتے وقت اس کا آواز کرنا۔

1556.

ام المومنین حضرت عائشہ ؓ  سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نکلے پہلے ہم نے عمرے کا احرام باندھا پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے پاس قربانی ہے اسے عمرے کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لینا چاہیے، پھر ایسا شخص حج اور عمرہ دونوں سے فراغت کے بعد ہی حلال ہوگا۔‘‘ حضر ت ام المومنین ؓ  فرماتی ہیں کہ جب مکہ مکرمہ آئی تو بحالت حیض تھی، اس لیے بیت اللہ کاطواف اور صفا مروہ کی سعی نہ کرسکی۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا: ’’اپنے سر کے بال کھول کر ان میں کنگھی کر لو اور عمرے کو چھوڑ کر صرف حج کی نیت کرلو۔‘‘ میں نے تعمیل حکم کی۔ پھر جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے مجھے میرے بھائی حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ  کے ہمراہ تنعیم بھیجا تو میں نے وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تمہارے اس ترک کردہ عمرے کے بدلے میں ہے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ  بیان کرتی ہیں کہ جن لوگوں نے صرف عمرے کا احرام باندھاتھا وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے حلال ہوگئے، پھر منیٰ سے واپسی کے بعد انھوں نے دوسرا طواف (زیارت) کیا۔ لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھا تھا انھوں نے صرف ایک ہی طواف کیا۔