تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں: جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ میرا احرام رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا ہے تو آپ نے دریافت فرمایا: ’’کیا تم اپنے ساتھ قربانی لائے ہو؟‘‘ میں نے کہا: نہیں! اس پر آپ نے فرمایا: ’’بیت اللہ کا طواف کرو اس کے بعد صفا و مروہ کی سعی کر کے احرام کی پابندی سے حلال ہو جاؤ۔‘‘ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4346) دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بعد میں اس کے مطابق لوگوں کو فتویٰ دیتا تھا کہ جس کے پاس قربانی نہ ہو وہ پہلے عمرہ کرے، پھر الگ سے ذوالحجہ کی آٹھویں تاریخ کو حج کا احرام باندھے لیکن جب حضرت عمر ؓ خلیفہ بنے تو میں نے ان سے اپنا موقف بیان کیا تو انہوں نے اس سے اختلاف کیا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1724) حضرت عمر کی رائے تھے کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں نہیں بدلنا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں وہ حج تمتع کے قائل نہیں تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں حضرت عمر کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے تو اس لیے احرام نہیں کھولا تھا کہ آپ کے ساتھ قربانی کا جانور تھا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی کی رائے قبول نہیں کرنی چاہیے۔ (2) الغرض امام بخاری ؒ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مبہم احرام باندھا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت علی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسی طرح کا احرام باندھا تھا لیکن ایسا کرنا صرف زمانہ نبوی کے ساتھ خاص تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت علی ؓ کو ان کی نیت کے مطابق ان کے احرام پر برقرار رکھا گیا کیونکہ وہ قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو طواف اور سعی کے بعد احرام کھول دینے کا حکم دیا کیونکہ ان کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا۔ اب چونکہ دین کی تکمیل ہو چکی ہے اور حج و عمرہ کے احرام واضح کر دیے گئے ہیں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ﴾ (البقرة:196:2) ’’حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو۔‘‘ ان حالات میں کسی کو مبہم احرام باندھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ امام بخاری ؒ کے عنوان سے یہی اشارہ ملتا ہے۔ واللہ أعلم