1559
.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنْ الثِّيَابِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَلْبَسُ الْقُمُصَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ إِلَّا أَحَدٌ لَا يَجِدُ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا مِنْ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ أَوْ وَرْسٌ قال ابو عبد اللہ یغسل المحرم راسه ولا يترجل ولا يحك جسده و يلقى القمل من راسه و جسده فى الارض
صحیح بخاری:
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
(
باب: محرم کو کونسے کپڑے پہننا درست نہیں
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: What kind of clothes a Muhrim should not wear)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1559.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !محرم کون سے کپڑے پہنے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’محرم قمیص، پگڑی، شلوار، ٹوپی، اور موزے نہ پہنے۔ ہاں اگر جوتا نہ ملے تو موزے پہن لے لیکن انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور ایسا کپڑا بھی نہ پہنو جسے زعفران یا ورس لگی ہوئی ہو۔‘‘
تشریح:
(1) ورس ایک زرد رنگ کی خوشبودار گھاس ہے جس میں کپڑوں کو رنگا جاتا تھا۔ چونکہ اس میں رنگے ہوئے کپڑوں میں خوشبو اور زینت ہے، اس لیے محرم کے لیے ان کا استعمال درست نہیں۔ اسی طرح زعفران میں رنگے ہوئے کپڑے بھی محرم کے لیے ناجائز ہیں۔ گویا احرام ایک سادہ اور فقیرانہ لباس ہے، اسے زیب تن کر کے انسان کو اللہ تعالیٰ کا فقیر بننا چاہیے۔ اس موقع پر جتنا بڑا بادشاہ یا امیر ہو اسے یہی احرام کی دو چادریں پہننا ہوتی ہیں تاکہ وحدتِ انسانی کا مظاہرہ ہو سکے۔ (2) قمیص اور شلوار سے مراد ہر وہ کپڑا ہے جو بدن کی قد وقامت کے مطابق سلا ہوا ہو، نیز ٹوپی اور پگڑی سے مراد ہر وہ کپڑا ہے جس سے سر ڈھانپا جائے اور موزوں سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے پاؤں چھپائے جائیں۔ (3) احرام کے متعلق مذکورہ شرائط صرف مردوں کے لیے ہیں، البتہ عورتیں صرف زعفرانی اور ورس زدہ کپڑوں سے اجتناب کریں، اس کے علاوہ نقاب باندھنے پر پابندی ہے لیکن جب غیر محرم سامنے آئے تو پردہ کرنا ضروری ہے۔ (فتح الباري:507/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1502
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1542
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1542
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1542
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !محرم کون سے کپڑے پہنے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’محرم قمیص، پگڑی، شلوار، ٹوپی، اور موزے نہ پہنے۔ ہاں اگر جوتا نہ ملے تو موزے پہن لے لیکن انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور ایسا کپڑا بھی نہ پہنو جسے زعفران یا ورس لگی ہوئی ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ورس ایک زرد رنگ کی خوشبودار گھاس ہے جس میں کپڑوں کو رنگا جاتا تھا۔ چونکہ اس میں رنگے ہوئے کپڑوں میں خوشبو اور زینت ہے، اس لیے محرم کے لیے ان کا استعمال درست نہیں۔ اسی طرح زعفران میں رنگے ہوئے کپڑے بھی محرم کے لیے ناجائز ہیں۔ گویا احرام ایک سادہ اور فقیرانہ لباس ہے، اسے زیب تن کر کے انسان کو اللہ تعالیٰ کا فقیر بننا چاہیے۔ اس موقع پر جتنا بڑا بادشاہ یا امیر ہو اسے یہی احرام کی دو چادریں پہننا ہوتی ہیں تاکہ وحدتِ انسانی کا مظاہرہ ہو سکے۔ (2) قمیص اور شلوار سے مراد ہر وہ کپڑا ہے جو بدن کی قد وقامت کے مطابق سلا ہوا ہو، نیز ٹوپی اور پگڑی سے مراد ہر وہ کپڑا ہے جس سے سر ڈھانپا جائے اور موزوں سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے پاؤں چھپائے جائیں۔ (3) احرام کے متعلق مذکورہ شرائط صرف مردوں کے لیے ہیں، البتہ عورتیں صرف زعفرانی اور ورس زدہ کپڑوں سے اجتناب کریں، اس کے علاوہ نقاب باندھنے پر پابندی ہے لیکن جب غیر محرم سامنے آئے تو پردہ کرنا ضروری ہے۔ (فتح الباري:507/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبردی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! محرم کو کس طرح کا کپڑا پہننا چاہئے؟ آنحضور ﷺ نے فرمایا نہ کرتہ پہنے نہ عمامہ باندھے نہ پاجامہ پہنے نہ باران کوٹ نہ موزے۔ لیکن اگر اس کے پاس جوتی نہ ہو تو وہ موزے اس وقت پہن سکتاہے جب ٹخنوں کے نیچے سے ان کو کاٹ لیا ہو۔ ( اور احرام میں ) کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس میں زعفران یاورس لگا ہوا ہو۔ ابو عبداللہ امام بخاری ؓ نے کہا کہ محرم اپنا سردھوسکتاہے لیکن کنگھا نہ کرے۔ بدن بھی نہ کھجلانا چاہئے او جوں سر اور بدن سے نکال کر زمین پر ڈالی جاسکتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ورس ایک زرد گھاس ہوتی ہے خوشبودار اوراس پرسب کا اتفاق ہے کہ محرم کو یہ کپڑے پہننے ناجائزہیں۔ ہر سلا ہوا کپڑا پہننا مرد کو احرام میں ناجائز ہے لیکن عورتوں کو درست ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایک لنگی اور ایک چادر، مرد کا یہی احرام ہے۔ یہ ایک فقیری لباس ہے، اب یہ حاجی اللہ کا فقیربن گیا، اس کو اس لباس فقر کا تا زندگی لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ا س موقع پر کوئی کتنا ہی بڑا بادشاہ مالدار کیوں نہ ہو سب کو یہی لباس زیب تن کر کے مساوات انسانی کا ایک بہترین نمونہ پیش کرنا ہے اور ہر امیر وغریب کو ایک ہی سطح پر آجانا ہے تاکہ وحدت انسانی کا ظاہراً اور باطناً بہتر مظاہرہ ہوسکے اور امراء کے دماغوں سے نخوت امیری نکل سکے اور غرباء کو تسلی واطمینان ہوسکے۔ الغرض لباس احرام کے اندر بہت سے روحانی ومادی وسماجی فوائد مضمر ہیں مگر ان کا مطالعہ کرنے کے لئے دیدہ بصیرت کی ضرورت ہے اور یہ چیز ہر کسی کو نہیں ملتی۔ ﴿إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): A man asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What kind of clothes should a Muhrim wear?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "He should not wear a shirt, a turban, trousers, a headcloak or leather socks except if he can find no slippers, he then may wear leather socks after cutting off what might cover the ankles. And he should not wear clothes which are scented with saffron or Wars (kinds of Perfumes) . "