تشریح:
(1) حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ کا یہ اجتماع مقام عسفان میں ہوا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1569) (2) حضرت عثمان ؓ تمتع اور قران دونوں سے منع کرتے تھے تاکہ لوگ حج افراد کو بالکل ہی نظر انداز نہ کر دیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صرف حج قران سے منع کرتے ہوں اور اس کو تمتع اس لیے کہا جاتا ہے کہ حج قران کرنے والا عمرے کے لیے الگ سفر کرنے کی اذیت سے محفوظ رہتا ہے، اس طرح وہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں ادا کرنے کا فائدہ حاصل کر لیتا ہے۔ چونکہ حضرت عثمان ؓ کا منع کرنا اپنے اجتہاد کی بنا پر تھا، اس لیے حضرت علی ؓ نے اس پر عمل نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو کسی کے قول کی بنا پر ترک نہیں کیا جا سکتا۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عثمان ؓ بہت بردبار اور حلیم الطبع تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خلیفہ ہونے کے باوجود اس مخالفت پر کسی کو ملامت نہیں کی۔ (4) سنن نسائی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:2724) لیکن یہ رجوع صریح الفاظ میں نہیں بلکہ اس روایت سے رجوع کا اشارہ ملتا ہے۔ (فتح الباري:536/3) (5) اس حدیث سے اتباع سنت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ رسول اکرم ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی صحابی کے اجتہاد کو بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ جو لوگ صریح حدیث کو اس لیے ترک کر دیتے ہیں کہ ہمارے امام، مفتی یا بزرگ کا فتویٰ اس پر نہیں ہے، ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔