تشریح:
(1) مکہ مکرمہ کے مکانات میں وراثت چلتی ہے کیونکہ ان کے متعلق حق ملکیت ثابت ہے۔ سردار ابو طالب کے چار بیٹے تھے: عقیل، طالب، حضرت جعفر اور حضرت علی۔ مؤخر الذکر دونوں بیٹے مسلمان ہو گئے۔ طالب جنگ بدر میں مارا گیا۔ عقیل کو اپنے باپ ابو طالب کی تمام جائیداد مل گئی۔ چونکہ یہ جائیداد ہاشم کی تھی جو پہلے عبدالمطلب کو منتقل ہوئی، اس نے اپنے تمام بیٹوں میں تقسیم کر دی۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کے باپ عبداللہ کا بھی حصہ تھا، لیکن آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ لوگوں کے درمیان نفرت پیدا نہ ہو۔ آپ اپنے باپ کے حصے میں پڑاؤ کر سکتے تھے لیکن آپ اللہ کے لیے ہجرت کر کے گئے تھے، اس لیے وہاں پڑاؤ کرنا مناسب خیال نہ کیا بلکہ ہوا یوں کہ عقیل نے آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے مکان پر بھی قبضہ کر لیا تھا، پھر اسے فروخت کر دیا، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’عقیل نے ہمارے لیے مکان چھوڑا کب ہے کہ ہم اس میں رہیں۔‘‘ (2) بہرحال احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ کے مکانات اور زمینوں میں لوگوں کا حق ملکیت قائم تھا۔ اس میں وراثت اور بیع و اجارہ کے معاملات بھی ہوتے تھے جو اسلام کے بعد بھی قائم رہے، چنانچہ سیدنا عمر ؓ کے زمانے میں نافع بن عبدالحارث نے صفوان بن امیہ سے ایک گھر جیل خانہ بنانے کے لیے مکہ میں اس شرط پر خریدا کہ اگر سیدنا عمر ؓ اس خریداری کو منطور کریں گے تو بیع پختہ ہو گی، بصورت دیگر صفوان کو چار سو دینار کرائے کے مل جائیں گے۔ (صحیح البخاري، الخصومات، باب:8) (3) امام بخاری ؒ عنوان اور پیش کردہ روایات سے ان احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جن میں مکہ مکرمہ کی عمارتوں کو فروخت کرنے یا انہیں کرائے پر دینے کی ممانعت ہے۔ (فتح الباري:568/3) امام ابن خزیمہ ؒ لکھتے ہیں کہ اگر مسجد حرام کا اطلاق تمام حرم پر صحیح ہو تو حرم کے اندر کنواں کھودنا، قبر بنانا، بول و براز کرنا، تعلقات زن و شو قائم کرنا، مردار اور بدبودار چیزوں کو پھینکنا جائز نہ ہو۔ ہمارے علم کے مطابق کسی عالم نے حرم میں ان کاموں سے منع نہیں کیا اور نہ حائضہ اور جنبی کے لیے حدود حرم میں داخل ہونے پر پابندی لگائی ہے، نیز اگر ایسا ہو تو مکہ کے مکانات اور اس کی دوکانوں میں اعتکاف بیٹھنا بھی جائز ہو اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ (فتح الباري:569/3) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں حضرت عمر ؓ سے بیان کیا ہے کہ مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہو سکتا، اسے آپ نے مرفوع حدیث کے طور پر بھی روایت کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث:6764)