قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ تَوْرِيثِ دُورِ مَكَّةَ، وَبَيْعِهَا وَشِرَائِهَا،)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ، وَالمَسْجِدِ الحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً العَاكِفُ فِيهِ وَالبَادِ، وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ} [الحج: 25]، البَادِي الطَّارِي، {مَعْكُوفًا} [الفتح: 25]: مَحْبُوسًا

1588. حَدَّثَنَا أَصْبَغُ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ تَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ فَقَالَ وَهَلْ تَرَكَ عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ فَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَكَانُوا يَتَأَوَّلُونَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ الْآيَةَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ مسجد الحرام میں سب لوگ برابر ہیں یعنی خاص مسجد میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الحج) میں فرمایا، جن لوگوں نے کفر کیا اور جو لوگ اللہ کی راہ اور مسجد الحرام سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ جس کو ہم نے تمام لوگوں کے لیے یکساں مقرر کیا ہے۔ خواہ وہ وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے اور جو شخص وہاں شرارت کے ساتھ حد سے تجاوز کرے، ہم اسے درد ناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ لفظ «بادي» باہر سے آنے والے کے معنی میں ہے اور «معكوفا» کا لفظ رکے ہوئے کے معنے میں ہے۔

1588.

حضرت اسامہ بن زید ؓ  سے روایت ہے، انھوں نے(حجۃ الوداع کو جاتے وقت) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ اپنے مکہ و الے گھر میں کہاں نزول فرمائیں گے؟اس پر آپ نے فرمایا: ’’عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائیداد یامکان کہاں چھوڑاہے؟‘‘عقیل اور طالب تو ابو طالب کے وارث ٹھہرے۔ حضرت جعفر اورحضرت علی ؓ  ان کی کسی چیز کے وارث نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے جبکہ عقیل اور طالب (اس وقت) کافر تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر ؓ  فرمایا کرتےتھے کہ کسی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ اس معاملے کے لیے لوگ ارشاد باری تعالیٰ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں: ’’جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال وجان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی ایک دو سرے کے وارث ہوں گے۔‘‘