Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Do not clean the private parts with dung)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
159.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایک دفعہ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے اور مجھے تین پتھر لانے کا حکم دیا، چنانچہ مجھے دو پتھر تو مل گئے۔ تلاش بسیار کے باوجود تیسرا نہ مل سکا تو میں نے (خشک) لید لی اور وہ آپ کے پاس لے آیا۔ آپ نے دونوں پتھر تو لے لیے اور لید کو پھینک دیا اور فرمایا ’’یہ پلید ہے۔‘‘امام بخاری ؓ فرماتے ہیں: اس حدیث کو ابراہیم بن یوسف نے بھی بیان کیا، وہ اپنے باپ یوسف سے، وہ ابو اسحاق سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: مجھے یہ حدیث عبدالرحمٰن بن اسود نے بیان کی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ لید وغیرہ سے طہارت حاصل نہیں ہوتی لہٰذا انھیں استنجا کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں وضاحت ہے کہ جو لید حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھا کر لائے تھے وہ گدھے کی لید تھی اس سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ رطوبت کے ملنے سے اس کی نجاست دو چند ہو جاتی ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے جنات کو غذا میسر آتی ہے۔ اس لیے اسے بطور استنجا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک فقہی اختلاف کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ ڈھیلوں سے استنجا کا مقصد تطہیر نجاست ہے یا تقلیل نجاست؟ جن حضرات کے نزدیک تطہیر نجاست ہے ان کے نزدیک ہڈی یا لید وغیرہ سے استنجا نہیں ہو گا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اسی طرف ہے اور جن حضرات کے نزدیک اس سے مراد تقلیل نجاست ہے ان کے نزدیک ہڈی اور خشک لید سے استنجا صحیح ہے اگرچہ خلاف سنت ہے۔ 2۔ استنجا کے متعلق تین باتیں قابل غور ہیں۔ 1۔ انقائے محل 2۔ تثلیث 3۔ ایتار۔ انقائے محل سے مراد بول و براز کے محل کو صاف کرنا ہے اور اس کے لیے کم ازکم تین ڈھیلے استعمال کرنا تثلیث ہے اگر زیادہ کی ضرورت ہو تو طاق تعداد میں استعمال کیے جائیں اسے ایتار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حدیث میں صراحت ہے کہ تم میں سے کوئی تین ڈھیلوں سے کم تعداد میں استنجا نہ کرے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 606(262)) اور اگر تین ڈھیلوں سے انقائے محل کا مقصد حاصل نہ ہو تو تین سے زیادہ ڈھیلے استعمال ہو سکتے ہیں لیکن ان میں طاق تعداد کا لحاظ رکھنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ تم میں سے جب کوئی طہارت کے لیے ڈھیلے استعمال کرے تو طاق تعداد (وتر) کا لحاظ رکھے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 585(239)) لیکن امام طحاوی نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ حدیث سے ثابت کیا ہے کہ تین پتھروں کی رعایت ضروری نہیں۔ اگر صفائی دو پتھروں سے ہو جائے تو کافی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔(شرح معاني الآثار: 73/1) یہ استدلال اس لیے محل نظر ہے کہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیسرا پتھر لانے کا حکم دیا۔ (مسند احمد: 450/1) یہ صراحت دارقطنی (55/1) میں بھی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ طہارت کے لیے کم ازکم تین پتھر ہونے ضروری ہیں اگرچہ ایک یا دو کے استعمال سے صفائی ہو جائے جیسا کہ عدت کے لیے تین حیض کا عدد مطلوب ہے اگرچہ استبرائے رحم کا مقصد ایک مرتبہ حیض آنے سے پورا ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري: 337/1)۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابو عبیدہ کے واسطے سے نہیں بلکہ عبد الرحمٰن بن اسود کے طریق سے ہے دراصل امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے متعلق اپنے استاد حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے اختلاف کیا ہے انھوں نے یہ روایت بایں سند ذکر کی ہے: (اسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي عبيدة۔۔۔۔۔) اور اس پر اعتماد کیا ہے، اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کردہ مذکورہ روایت پر اعتراض کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت بایں سند ہے۔(زهير عن أبي إسحاق عن عبدالرحمن بن الأسود عن الأسود) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت سند کے لحاظ سے عالی ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مرجوح قراردیا ہے۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں۔ 1۔ زہیر اسرائیل کے مقابلے میں زیادہ بلند مرتبہ ہے جیسا کہ ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ سے اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرنے میں زہیر اور اسرائیل کا مرتبہ پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: کہ زہیر، اسرائیل سے بہت زیادہ بلند مرتبہ ہے۔ 2۔ شریک قاضی اس روایت کی تائید میں زہیر متابعت کرتا ہے اور یہ متابعت قوی ہے۔ 3۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسرائیل نے ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سےعمر کے اس حصے میں سماع کیا ہے جبکہ انھیں اختلاط ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے خود صراحت کی ہے کہ ابو عبیدہ نے اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کچھ نہیں سنا جبکہ زہیر کا طریق متصل ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آخر میں ابراہیم بن یوسف کی متابعت ذکر کی ہے دراصل سلیمان شاذ کونی نے اس روایت کے پیش نظر ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کو تدلیس کا الزام دیا ہے کہ اس روایت میں عبد الرحمٰن بن اسود سے بیان کرنے میں تحدیث یا اخبار کی صراحت نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس الزام کا جواب دیا ہے کہ ابراہیم بن یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے جب اس روایت کو بیان کیا ہے تو انھوں نے تحدیث کے صیغے سے نقل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ پر تدلیس کا الزام غلط ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر مدلس سے روایت نقل کرنے کا اعتراض بھی بے بنیاد ہے۔ (فتح الباري: 338/1) 5۔ قضائے حاجت کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے وقت استنجا فرماتے تو اس کے بعد مٹی سے مل کر ہاتھوں کو پانی سے خوب صاف کرتے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 45) مٹی کے بجائے ہاتھوں کو صابن وغیرہ سے بھی صاف کیا جا سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
158
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
156
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
156
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
156
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایک دفعہ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے اور مجھے تین پتھر لانے کا حکم دیا، چنانچہ مجھے دو پتھر تو مل گئے۔ تلاش بسیار کے باوجود تیسرا نہ مل سکا تو میں نے (خشک) لید لی اور وہ آپ کے پاس لے آیا۔ آپ نے دونوں پتھر تو لے لیے اور لید کو پھینک دیا اور فرمایا ’’یہ پلید ہے۔‘‘امام بخاری ؓ فرماتے ہیں: اس حدیث کو ابراہیم بن یوسف نے بھی بیان کیا، وہ اپنے باپ یوسف سے، وہ ابو اسحاق سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: مجھے یہ حدیث عبدالرحمٰن بن اسود نے بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ لید وغیرہ سے طہارت حاصل نہیں ہوتی لہٰذا انھیں استنجا کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں وضاحت ہے کہ جو لید حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھا کر لائے تھے وہ گدھے کی لید تھی اس سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ رطوبت کے ملنے سے اس کی نجاست دو چند ہو جاتی ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے جنات کو غذا میسر آتی ہے۔ اس لیے اسے بطور استنجا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک فقہی اختلاف کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ ڈھیلوں سے استنجا کا مقصد تطہیر نجاست ہے یا تقلیل نجاست؟ جن حضرات کے نزدیک تطہیر نجاست ہے ان کے نزدیک ہڈی یا لید وغیرہ سے استنجا نہیں ہو گا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اسی طرف ہے اور جن حضرات کے نزدیک اس سے مراد تقلیل نجاست ہے ان کے نزدیک ہڈی اور خشک لید سے استنجا صحیح ہے اگرچہ خلاف سنت ہے۔ 2۔ استنجا کے متعلق تین باتیں قابل غور ہیں۔ 1۔ انقائے محل 2۔ تثلیث 3۔ ایتار۔ انقائے محل سے مراد بول و براز کے محل کو صاف کرنا ہے اور اس کے لیے کم ازکم تین ڈھیلے استعمال کرنا تثلیث ہے اگر زیادہ کی ضرورت ہو تو طاق تعداد میں استعمال کیے جائیں اسے ایتار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حدیث میں صراحت ہے کہ تم میں سے کوئی تین ڈھیلوں سے کم تعداد میں استنجا نہ کرے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 606(262)) اور اگر تین ڈھیلوں سے انقائے محل کا مقصد حاصل نہ ہو تو تین سے زیادہ ڈھیلے استعمال ہو سکتے ہیں لیکن ان میں طاق تعداد کا لحاظ رکھنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ تم میں سے جب کوئی طہارت کے لیے ڈھیلے استعمال کرے تو طاق تعداد (وتر) کا لحاظ رکھے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 585(239)) لیکن امام طحاوی نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ حدیث سے ثابت کیا ہے کہ تین پتھروں کی رعایت ضروری نہیں۔ اگر صفائی دو پتھروں سے ہو جائے تو کافی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔(شرح معاني الآثار: 73/1) یہ استدلال اس لیے محل نظر ہے کہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیسرا پتھر لانے کا حکم دیا۔ (مسند احمد: 450/1) یہ صراحت دارقطنی (55/1) میں بھی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ طہارت کے لیے کم ازکم تین پتھر ہونے ضروری ہیں اگرچہ ایک یا دو کے استعمال سے صفائی ہو جائے جیسا کہ عدت کے لیے تین حیض کا عدد مطلوب ہے اگرچہ استبرائے رحم کا مقصد ایک مرتبہ حیض آنے سے پورا ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري: 337/1)۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابو عبیدہ کے واسطے سے نہیں بلکہ عبد الرحمٰن بن اسود کے طریق سے ہے دراصل امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے متعلق اپنے استاد حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے اختلاف کیا ہے انھوں نے یہ روایت بایں سند ذکر کی ہے: (اسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي عبيدة۔۔۔۔۔) اور اس پر اعتماد کیا ہے، اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کردہ مذکورہ روایت پر اعتراض کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت بایں سند ہے۔(زهير عن أبي إسحاق عن عبدالرحمن بن الأسود عن الأسود) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت سند کے لحاظ سے عالی ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مرجوح قراردیا ہے۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں۔ 1۔ زہیر اسرائیل کے مقابلے میں زیادہ بلند مرتبہ ہے جیسا کہ ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ سے اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرنے میں زہیر اور اسرائیل کا مرتبہ پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: کہ زہیر، اسرائیل سے بہت زیادہ بلند مرتبہ ہے۔ 2۔ شریک قاضی اس روایت کی تائید میں زہیر متابعت کرتا ہے اور یہ متابعت قوی ہے۔ 3۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسرائیل نے ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سےعمر کے اس حصے میں سماع کیا ہے جبکہ انھیں اختلاط ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے خود صراحت کی ہے کہ ابو عبیدہ نے اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کچھ نہیں سنا جبکہ زہیر کا طریق متصل ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آخر میں ابراہیم بن یوسف کی متابعت ذکر کی ہے دراصل سلیمان شاذ کونی نے اس روایت کے پیش نظر ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کو تدلیس کا الزام دیا ہے کہ اس روایت میں عبد الرحمٰن بن اسود سے بیان کرنے میں تحدیث یا اخبار کی صراحت نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس الزام کا جواب دیا ہے کہ ابراہیم بن یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے جب اس روایت کو بیان کیا ہے تو انھوں نے تحدیث کے صیغے سے نقل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ پر تدلیس کا الزام غلط ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر مدلس سے روایت نقل کرنے کا اعتراض بھی بے بنیاد ہے۔ (فتح الباري: 338/1) 5۔ قضائے حاجت کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے وقت استنجا فرماتے تو اس کے بعد مٹی سے مل کر ہاتھوں کو پانی سے خوب صاف کرتے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 45) مٹی کے بجائے ہاتھوں کو صابن وغیرہ سے بھی صاف کیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے ابواسحاق کے واسطے سے نقل کیا، ابواسحاق کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ابوعبیدہ نے ذکر نہیں کیا۔ لیکن عبدالرحمن بن الاسود نے اپنے باپ سے ذکر کیا، انھوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ رفع حاجت کے لیے گئے۔ تو آپ نے مجھے فرمایا کہ میں تین پتھر تلاش کر کے آپ کے پاس لاؤں۔ لیکن مجھے دو پتھر ملے۔ تیسرا ڈھونڈا مگر مل نہ سکا۔ تو میں نے خشک گوبر اٹھا لیا۔ اس کو لے کر آپ کے پاس آ گیا۔ آپ نے پتھر (تو) لے لیے (مگر) گوبر پھینک دیا اور فرمایا یہ خود ناپاک ہے۔ (اور یہ حدیث) ابراہیم بن یوسف نے اپنے باپ سے بیان کی۔ انھوں نے ابواسحاق سے سنا، ان سے عبدالرحمن نے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
اس کو اس لیے ناپاک فرمایا کہ وہ گدھے کی لید تھی جیسا کہ امام احمد کی روایت میں تشریح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) went out to answer the call of nature and asked me to bring three stones. I found two stones and searched for the third but could not find it. So took a dried piece of dung and brought it to him. He took the two stones and threw away the dung and said, "This is a filthy thing."