تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اعضائے وضو کو تین تین بار دھونا بھی مستحب و مسنون ہے لیکن اس روایت میں ہاتھ اور چہرے کو تین تین دفعہ دھونے کا ذکر ہے لیکن کلی کے لیے منہ میں اور ناک میں پانی ڈالنے کے متعلق مرات کا ذکر نہیں لیکن چونکہ یہ دونوں چہرے میں شامل ہیں اور چہرے ہی کے باطن کے ساتھ ان کا تعلق ہے اس لیے ظاہر ہے کہ ان کا عمل بھی تین تین بار ہوگا۔ سر کے مسح کے ساتھ بھی مرات کا ذکر نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آئندہ ایک مستقل عنوان قائم کر کے ثابت کریں گے کہ سر کا مسح ایک بار ہے۔ اگرچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابراہیم التیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سر کا مسح تین دفعہ کرنا منقول ہے لیکن صحیح موقف یہی ہے کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہی ہے۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابن شہاب زہری سے دو روایات نقل کی ہیں۔ دراصل امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے دو استاذ ہیں: ایک حضرت عطاء بن ابی یزید جس میں ہے کہ وضو کے بعد اخلاص کے ساتھ دو رکعت ادا کرنے سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ دوسرے استاذ حضرت عرو ہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جس میں وضو کے بعد مطلق طور پر نماز پڑھنے کا ذکر ہے اور اس میں ان گناہوں کی تحدید کی گئی ہے جو اس عمل مبارک سے معاف ہو جائیں گے یعنی جو اس نماز سے دوسری نماز تک ہوں گے نیز اس آخری روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کی ایک آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ یہ حدیث بیان فرمائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کا ذکر نہیں فرمایا البتہ حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت کریمہ کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اس بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ (1)۔ اس حدیث میں معمولی سے عمل پر غیر معمولی اجر و ثواب کا وعدہ ہے ممکن ہے کہ کوئی سننے والا اسے مبالغہ یا کسی راوی کے سہوونسیان پر محمول کرے پھر میرے اس بیان کی تکذیب کر ڈالے جو دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہو گی اس اندیشہ تکذیب کے پیش نظر میں اسے بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن قرآن کریم کی اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کرتا ہوں جس میں کتمان علم پر وعید ہے۔ (2)۔ اس عمل پر جو غیر معمولی اجرو ثواب کا وعدہ ہے اس پر انسان فریب اور دھوکے میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ اب گناہ معاف ہو گئے ہیں مزید کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ لوگوں کی اس فریب خوردگی کی بنا پر دل نہیں چاہتا کہ اسے بیان کروں لیکن مجھے کتمان علم کی وعید کا خوف ہے۔ اس لیے بیان کرتا ہوں ۔ اس اندیشے کا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ہے چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی نقل فرمائے ہیں’’اس قدر اجرو ثواب ملنے پر دھوکے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6433) اس کا مطلب یہ ہے کہ سہل پسند لوگوں کو اس بات پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے کہ پروانہ مغفرت ملنے کے بعد دیگر اعمال کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ انہیں سوچنا چاہیے کہ جب اس معمولی کام پر اس قدر ثواب کی بشارت ہے تو بڑے بڑے کاموں کے بجا لانے پر اللہ کی عنایات کا کیا عالم ہو گا۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ عمل خیر کی کوشش ہونی چاہیے، فریب نفس میں مبتلا ہو کر اعمال خیر کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔
3۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے بعد جس آیت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے: ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ﴾ ’’بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔‘‘ (ھود11: 114) اس آیت کے پیش نظر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا یہ مطلب ہوگا کہ مجھے تکذیب کے ڈر سے یہ بات ذکر نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن قرآن کریم سے اس بیان کی تائید ہو رہی ہے کہ نیکیا ں کرنے سے برائیاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔ قرآن کریم کی اس تائید کے بعد مجھے خطرہ نہیں کہ یہ حدیث عوام الناس کے لیے کسی تردد کا باعث ہوگی۔ (مؤطا امام مالك، الطهارة، حدیث: 160)
4۔ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کے بعددو رکعت تحیۃ الوضو ہیں لیکن ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد تحیۃ المسجد ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص وضو کرنے کے بعد مسجد میں آئے اور دو رکعت ادا کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6433) لیکن اس بشارت کے لیے شرط یہ ہے کہ انھیں حضور قلب سے ادا کیا جائے دوران نماز میں خیالات منتشر نہ ہوں از خود خیالات کو دعوت نہ دی جائے۔ اگر غیر اختیاری طور پر خیالات آ رہے ہیں تو وہ چنداں نقصان دہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے از خود آنے والے خیالات و وساوس سے درگزر فرمایا ہے۔
5۔ فضائل اعمال کے سلسلے میں جہاں جہاں مغفرت کا ذکر ہے۔ اس سے مراد صغیرہ گناہوں کی معافی ہے، اس لیے کہ کبیرہ گناہ تو بہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شرک، قتل ناحق اور زنا جیسے کبیرہ گناہوں کی سزابیان کرنے کے بعد ﴿إِلَّا مَن تَابَ﴾ ’’مگر جو شخص ان میں سے توبہ کرے‘‘ سے استثنا ذکر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کی تلافی کے لیے توبہ ضروری ہے صغیرہ گناہوں کی تلافی کبیرہ گناہوں سے اجتناب کو قراردیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ﴾ ’’اگر تم ممنوعات کی بڑی بڑی باتوں سے اجتناب کرو گے تو ہم تمھارے صغیرہ گناہوں کو تم سے خود ہی معاف کردیں گے۔‘‘ (النساء4: 31) پھر اچھے کام کرنا از خود برائیوں کو مٹا دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ﴾ ’’بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔‘‘ (ھود11: 114) گناہوں کی بخشش کا قرآنی ضابطہ یہی ہے احادیث میں بھی اس کی وضاحت ہے کیونکہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کے گناہ ختم ہو جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہ ہو۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 543(228)) جمعہ ادا کرنے سے دوسرے جمعے تک کفارہ بن جاتا ہے بشرطیکہ کبائر کا ارتکاب نہ کرے۔(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 550(233)) اسی طرح ایک رمضان کے روزے رکھنے سے دوسرے رمضان تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں جبکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 552(233)) اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ مذکورہ احادیث میں جو بشارت دی گئی ہے وہ صغیرہ گناہوں سے متعلق ہے کبیرہ گناہ اور حقوق العباد اس میں شامل نہیں اگرچہ بعض اہل علم نے اس کو عام رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی حدیث کے مطابق وضو کرے گا اور نماز پڑھے گا تو اسے خود بخود ندامت ہوگی۔ جو توبہ کے لیے اساس ہے۔ نیز مومن کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ کبائر کا ارتکاب کرےاور اگر کبھی بشری تقاضے کے مطابق ان کا صدور ہو جائے تو اسے توبہ کیے بغیر چین نہیں آتا۔ (وَللنّاسِ فِيمَا يَعْشَقُونَ مَذَاهِبُ) احادیث میں اکیلے وضو کے متعلق یہ فضیلت ہے کہ آدمی کے ہاتھوں منہ اور پاؤں سے سر زد ہونے والے گناہ ان کے دھونے سے معاف ہو جاتے ہیں پھر اس کا مسجد کی طرف آنا اور نماز ادا کرنا ایک اضافی عمل ہوتا ہے جو رفع درجات کا باعث بن جاتا ہے۔(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 577(244)) نماز کے متعلق بھی احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص وضو کرتا ہے اور نماز پنجگانہ ادا کرتا ہے، اس سے اس کے گناہوں کی میل کچیل اس طرح صاف ہو جائے گی جس طرح گھر کے آگے بہنے والی نہر میں پانچ دفعہ نہانے سے صفائی ہو جاتی ہے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 528) لیکن بعض لوگوں کا ’’تدبر‘‘ قرآن و حدیث میں ٹکراؤ پیدا کر کے احادیث کے انکار کی راہ ہموار کرتا ہے۔ چنانچہ’’امام تدبر‘‘نے لکھا ہے’’بخشش کا یہ سستا نسخہ قرآن کے خلاف پڑتا ہے۔‘‘ (تدبر حدیث: 262/1)
6۔ حدیث میں نماز اور وضو دونوں کا ذکر ہے اور یہ ایک اتفاقی امر ہے بصورت دیگر اگر کوئی شخص پہلے سے وضو کیے ہوئے ہے اور اس نے نماز ادا کی تو اسے بھی مغفرت حاصل ہوگی۔ اگر اس سے پہلے کوئی ایسا کام کیا جس سے گناہ معاف ہو چکے ہیں تو حدیث میں بیان شدہ عمل خیر ترقی درجات کا باعث ہوگا۔ اگر کسی کے کبیرہ گناہ ہیں تو امید ہے کہ اس بابرکت عمل سے ان کی سنگینی کو ضرور ہلکا کر دیا جائے گا۔ (عمدۃ القاري: 450/2)