تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر کعبے کو بتوں سے پاک کیا، پھر اندر تشریف لے گئے اور خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کیا بلکہ کعبہ کے چاروں کونوں میں اللہ کی کبریائی کا اعلان کیا۔ (2) اس روایت میں حضرت ابن عباس ؓ نے کعبہ میں نماز پڑھنے کی نفی کی ہے جبکہ حضرت بلال ؓ نے اس کا اثبات کیا ہے۔ امام بخاری ؓ نے ایک مقام پر حضرت بلال کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ اس میں اثبات ہے اور نماز نہ پڑھنے کی روایت کو مرجوح قرار دیا ہے کیونکہ یہ ایک نفی ہے اور اصولی لحاظ سے اثبات نفی پر مقدم کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس حضرت ابن عباس ؓ نے تکبیر کا اثبات کیا ہے اور حضرت بلال ؓ نے اس کی نفی نہیں کی۔ امام بخاری ؒ نے اس مقام پر اسے بطور حجت پیش کیا ہے کیونکہ اس میں اضافہ ہے۔ اس اضافے کے باعث آپ نے اس عنوان کو ثابت کیا ہے۔ دراصل حضرت ابن عباس ؓ فتح مکہ کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نہیں تھے۔ وہ نماز کی نفی کو اپنے بھائی فضل بن عباس ؓ سے بیان کرتے ہیں لیکن وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نہیں تھے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے حضرت اسامہ ؓ سے اس نفی کو بیان کیا ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت بلال اور حضرت اسامہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو دعا میں مصروف ہو گئے۔ اس اثناء میں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھ لی، جس کے متعلق حضرت اسامہ ؓ کو معلوم نہ ہو سکا، اس بنا پر انہوں نے نماز کی نفی کر دی۔ بہرحال امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے بیت اللہ کے اندر نعرہ تکبیر بلند کرنے کو ثابت کیا ہے، اور اس کا اثبات اظہر من الشمس ہے۔ واللہ أعلم