تشریح:
(1) صلح حدیبیہ کے بعد جب عمرہ قضا کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مکہ آنے کا پروگرام بنایا تو کفار قریش نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مدینہ منورہ کی آب و ہوا نے انہیں کمزور کر دیا ہے اس بنا پر وہ بہت لاغر ہو چکے ہیں۔ بزعم خود وہ صحابہ کرام ؓ کی لاغری اور دبلا پن دیکھنے کے لیے میزابِ رحمت کے سامنے پہاڑ پر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دفاعی نقطہ نظر سے اپنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ احرام باندھ کر پہلوانوں کی طرح کندھے ہلا کر چلو تا کہ قریش پر تمہاری طاقت ظاہر ہو اور انہیں پتہ چل جائے کہ ہم کمزور نہیں ہیں، چنانچہ صحابہ کرام ؓ نے احرام کی چادریں دائیں بغلوں کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھوں پر ڈال لیں اور پہلوانوں کی طرح کندھوں کو ہلا ہلا کر بیت اللہ کا طواف کرنے لگے۔ جب رکن یمانی کے پاس آتے تو حجراسود تک آہستہ آہستہ چلتے۔ جب قریش کے سامنے آتے تو تیز تیز چلتے۔ صرف پہلے تین چکروں میں رمل کیا جاتا ہے۔ (2) عورتوں کو رمل کرنے کی اجازت نہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کی یہ ادا اللہ کو اس قدر پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ کے لیے سنت قرار دے دیا، حالانکہ اکڑ کر چلنا تکبر کی علامت ہے لیکن اس وقت کافروں پر رعب ڈالنا مقصود تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اب رمل کرنے کا سبب ختم ہو چکا ہے، لہذا اب رمل کرنا مسنون نہیں لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے۔ بہرحال اب بھی یادگار کے طور پر رمل کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے عروج کی تاریخ تازہ رہے۔ واللہ أعلم