تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع ہر چیز سے مقدم ہے، خواہ اس کی علت ہمارے دماغ میں آئے یا نہ آئے ہمیں اسے عمل میں لانا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کی سیرت سے بھی یہی سبق ملتا ہے۔ وہ بہت پابند شریعت اور متبع سنت تھے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ حجراسود کو بوسہ دیا جاتا ہے اور بظاہر اس کا کوئی سبب نہیں تو اپنی رائے ترک کر دی اور پتھر کو بوسہ دے کر اتباع سنت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ رمل کے متعلق بھی انہوں نے فرمایا کہ اب اگرچہ اس کا سبب ختم ہو چکا ہے، تاہم اتباع سنت کا تقاضا ہے کہ اسے عمل میں لایا جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا: اب رمل اور کندھوں کو ننگا کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ پھر فرمانے لگے: ممکن ہے کہ اس کی حکمت پر میں مطلع نہ ہو سکا ہوں، پھر انہوں نے رمل کیا۔ اس میں یہی حکمت کافی ہے کہ یہ عمل ایک یادگار کے طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت و قوت اور شان و شوکت سے ہمکنار کیا تھا، یعنی اس عمل سے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کی یاد دہانی ہوتی ہے۔ (فتح الباري:395/3) (2) رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر رمل کیا، حالانکہ اس وقت مشرکین کو اپنی طاقت دکھانا مقصود نہیں تھا۔ اس بنا پر سبب ہو یا نہ ہو رمل کی حیثیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ واللہ أعلم