تشریح:
(1) حضرت ابن عمر ؓ سے سوال کرنے والا شخص یمنی تھا، اس لیے آپ نے فرمایا کہ اگر تو سنت کا طالب ہے اور اسی لیے اتنی دور کا سفر کیا ہے تو اپنی رائے کو چھوڑ اور سنت پر عمل کر۔ حضرت ابن عمر ؓ کے جذبہ اتباع سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قول و عمل کے مقابلے میں حیلوں اور بہانوں کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ ایمان کی نشانی یہ ہے حدیث سننے کے بعد فورا اس پر عمل شروع کر دیا جائے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے خیال کیا کہ سائل اگر مگر کے ذریعے سے حدیث کا معارضہ کرتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنا چشم دید واقعہ دوبارہ بیان کیا۔ (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ازدحام ترک استلام کے لیے عذر نہیں، چنانچہ حضرت ابن عمر ؓ رکن کے استلام پر مزاحمت کرتے حتی کہ زخمی ہو جاتے، البتہ حضرت ابن عباس ؓ اس مزاحمت کو مکروہ خیال کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ استلام کرتے وقت کسی کو تکلیف نہ دو، کسی دوسرے کے لیے اذیت کا باعث نہ بنو۔ (3) واضح رہے کہ حجراسود کو بوسہ دیتے وقت آواز پیدا نہ کی جائے، چنانچہ سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ جب حجراسود کو بوسہ دو تو آواز بلند نہ کرو۔ (فتح الباري:600/3) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن یہ پتھر اس حالت میں آئے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن کے ذریعے سے یہ دیکھے گا اور زبان ہو گی جس کے ذریعے سے یہ بول کر ایسے شخص کے لیے گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اس کا بوسہ لیا ہو گا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث:2944)