تشریح:
(1) اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں مردوں کے ہمراہ طواف کر سکتی ہیں لیکن اختلاط سے اجتناب کریں، چنانچہ سیدہ ام سلمہ ؓ نے مردوں کے طواف کرتے وقت ہی اپنا طواف مکمل کیا لیکن ان سے پیچھے رہتے ہوئے اس فریضے کو سرانجام دیا کیونکہ طواف کرتے وقت عورتوں کو مردوں سے علیحدہ رہنا چاہیے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عذر کی وجہ سے سواری پر طواف ہو سکتا ہے لیکن آج کل کسی حیوان پر سوار ہو کر طواف کرنا ناممکن ہے، البتہ کوئی انسان دوسروں کو کندھوں پر اٹھا کر طواف کرا سکتا ہے، تاہم یہ بات قابل بحث ہے کہ ایسا کرنے سے حامل اور محمول دونوں کا طواف ہو گا یا صرف ایک کا؟ اور کیا دوسرے کو دوبارہ طواف کرنا پڑے گا؟ ہمارے نزدیک دونوں کی طرف سے ایک ہی دفعہ طواف ہو جائے گا۔ واللہ أعلم۔ (3) ایک روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت ام سلمہ ؓ کو طواف وداع کرنے کے لیے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ جب صبح کی نماز کھڑی ہو جائے تو تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے سے اپنا طواف مکمل کر لینا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1626)