تشریح:
(1) اس حدیث سے آب زمزم کی فضیلت اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کھڑے ہو کر نوش فرمایا (پیا)، حالانکہ کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت کے متعلق بکثرت احادیث وارد ہیں۔ آب زمزم کے علاوہ دوسرا پانی اگر کھڑے ہو کر پیا جائے تو اس سے نقصان کا اندیشہ ہے لیکن زمزم کا پانی سراسر شفا ہے، اس لیے اگر اسے کھڑے ہو کر پیا جائے تو اس میں کوئی نقصان نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے کھڑے ہو کر پانی پینے کا جواز بھی ثابت کیا ہے، چنانچہ آئندہ ایک مستقل عنوان کے تحت اس مسئلے کو بیان کریں گے۔ حضرت عکرمہ ؒ کے بیان سے یہ مقصود ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پانی نہیں پیا بلکہ آپ تو اس دن اونٹ پر سوار تھے، حالانکہ ابوداود کی روایت میں ہے کہ طواف مکمل کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے اونٹ کو بٹھایا، پھر آپ نے طواف کی دو رکعت ادا کیں۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1881) شاید آپ نے آب زمزم اس کے بعد نوش کیا ہو۔ چونکہ کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت کے متعلق احادیث آئی ہیں، اس لیے انہوں نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے انکار کیا ہے، حالانکہ حضرت علی ؓ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پیا تھا۔ (صحیح البخاري،الأشربة، حدیث:5616) بہرحال عام حالات میں بیٹھ کر ہی پانی پینا چاہیے لیکن کبھی کبھار بیان جواز کے طور پر کھڑے ہو کر پانی پینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:623/3) واللہ أعلم