Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The cleaning of the nose by putting water in it and then blowing it out during ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
’’اس مسئلہ کو عثمان اور عبداللہ بن زید اور ابن عباسؓ نے رسول اللہﷺسے نقل کیا ہے۔‘‘
164.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص وضو کرے، وہ ناک صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے، وہ طاق ڈھیلے لے۔‘‘
تشریح:
1۔ روایات سے ثابت ہے کہ شیطان خیشوم (نتھنوں) میں بیٹھ کر فاسد اثرات دماغ پر ڈالتا ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3295) اس سے معلوم ہوا کہ ناک شیطان کی نشست گاہ ہے۔ وہ اسے اپنی آماجگاہ اس لیے بناتا ہے کہ ایک طرف تو غباراڑاڑ کر اس میں پہنچتا ہے دوسری طرف دماغ کی فاسد رطوبات بھی اسی جگہ جمع ہوتی ہیں گویا ناک میں اندر اور باہر دونوں طرف سے گندگی جمع ہوتی رہتی ہے اور شیطان کو گندگی سے خاص مناسبت ہے، اس لیے اسے صاف کرنے کا حکم ہے نیز اگر فاسد رطوبات ناک میں جمع رہیں تو سانس لینے اور قراءت کرنے میں بھی تکلف ہوتا ہے خاص طور پرغنے کی ادائیگی تو خیشوم سے ہوتی ہے، اس لیے اسے صاف کرنا ضروری ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ اسے واجب خیال کرتے ہیں بظاہر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کے ہم نوا ہیں نیز یہاں امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور صیغہ امر میں وجوب ہوتا ہے الایہ کہ اس کے خلاف کوئی قرینہ آجائے۔ اگرچہ جمہور کے نزدیک یہ سنت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی کو وضو کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا تھا۔’’وضو کر جیسا کہ تجھے اللہ نے حکم دیا ہے۔‘‘ اور آیت کریمہ میں ناک میں پانی ڈالنے اور اسے صاف کرنے کا حکم نہیں ہے لیکن یہ استدلال اس لیے محل نظر ہے کہ ایک لحاظ سے منہ اور ناک چہرے ہی کا حصہ ہیں جس کے دھونے کا اللہ نے حکم دیا ہے نیز حدیث میں اللہ کے حکم سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے جو اللہ کے حکم پر مبنی ہوتی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ترک ثابت نہیں اگرچہ اس روایت میں تین دفعہ ناک صاف کرنے کا حکم نہیں ہے تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو وضو کرتے وقت ناک کو تین دفعہ صاف کرے کیونکہ شیطان اس کے خیشوم میں شب باشی کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3295) ناک صاف کرتے وقت بعض روایات میں طاق عدد کا لحاظ رکھنے کا حکم ہے۔ (مسند حمیدي، حدیث: 957) لیکن یہ حکم وجوب کے لیے نہیں ہے کیونکہ بعض روایات میں جفت عدد پراکتفا بھی ثابت ہے۔(سنن أبي داؤد، الطھارة، حدیث: 141) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ناک صاف کرنے کو کلی کرنے سے پہلے بیان فرمایا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ منہ کی نسبت ناک میں زیادہ تستر (پوشیدگی) ہے۔ گویا منہ ظاہر ہے اور ناک اس کا باطن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر کی صفائی بھی ضروری ہے لیکن باطن کی تطہیر زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام صاحب کے نزدیک وضو کرتے وقت اعضاء کے دھونے میں ترتیب ضروری نہیں اس لیے اسے مقدم کیا ہے لیکن یہ بات قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
163
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
161
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
161
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
161
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
ناک میں پانی چڑھا کر اسے نکالنے کے لیے پردہ بینی کو حرکت دینے کا نام استنثار ہے تاکہ جمع شدہ رطوبت سے ناک کو صاف کیا جائے اسے ناک جھاڑنے سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یہ عمل بائیں ہاتھ سے ہونا چاہیے جیسا کہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے اور اس کے لیے ایک حدیث بھی لائے ہیں۔( سنن النسائی الطہارۃ حدیث91۔) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ہاتھ کے بغیر عمل استنشارکو مکروہ خیال کیا ہے کیونکہ یہ حیوانات کا فعل ہے۔ ناک میں پانی چڑھاتے وقت خوب مبالغہ کیا جائے البتہ روزے دار کو مبالغے کی اجازت نہیں۔ حدیث میں اس کی وضاحت ہے(سنن النسائی الطہارۃ حدیث 87۔)حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث پہلے(نمبر159)گزر چکی ہے۔حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث آئندہ (نمبر185)بیان ہوگی اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پہلے (نمبر140) بیان ہو چکی ہے۔اگرچہ اس میں ناک جھاڑنے کا ذکر نہیں ہے لیکن صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ناک جھاڑنے کے الفاظ موجود ہیں تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا جس میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے (مسند احمد 1/228۔)اسی طرح ابو داود رحمۃ اللہ علیہ طیالسی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً ان الفاظ کو نقل فرمایا ہے جس کی سند حسن ہے۔( فتح الباری1/343۔)
’’اس مسئلہ کو عثمان اور عبداللہ بن زید اور ابن عباسؓ نے رسول اللہﷺسے نقل کیا ہے۔‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص وضو کرے، وہ ناک صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے، وہ طاق ڈھیلے لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ روایات سے ثابت ہے کہ شیطان خیشوم (نتھنوں) میں بیٹھ کر فاسد اثرات دماغ پر ڈالتا ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3295) اس سے معلوم ہوا کہ ناک شیطان کی نشست گاہ ہے۔ وہ اسے اپنی آماجگاہ اس لیے بناتا ہے کہ ایک طرف تو غباراڑاڑ کر اس میں پہنچتا ہے دوسری طرف دماغ کی فاسد رطوبات بھی اسی جگہ جمع ہوتی ہیں گویا ناک میں اندر اور باہر دونوں طرف سے گندگی جمع ہوتی رہتی ہے اور شیطان کو گندگی سے خاص مناسبت ہے، اس لیے اسے صاف کرنے کا حکم ہے نیز اگر فاسد رطوبات ناک میں جمع رہیں تو سانس لینے اور قراءت کرنے میں بھی تکلف ہوتا ہے خاص طور پرغنے کی ادائیگی تو خیشوم سے ہوتی ہے، اس لیے اسے صاف کرنا ضروری ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ اسے واجب خیال کرتے ہیں بظاہر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کے ہم نوا ہیں نیز یہاں امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور صیغہ امر میں وجوب ہوتا ہے الایہ کہ اس کے خلاف کوئی قرینہ آجائے۔ اگرچہ جمہور کے نزدیک یہ سنت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی کو وضو کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا تھا۔’’وضو کر جیسا کہ تجھے اللہ نے حکم دیا ہے۔‘‘ اور آیت کریمہ میں ناک میں پانی ڈالنے اور اسے صاف کرنے کا حکم نہیں ہے لیکن یہ استدلال اس لیے محل نظر ہے کہ ایک لحاظ سے منہ اور ناک چہرے ہی کا حصہ ہیں جس کے دھونے کا اللہ نے حکم دیا ہے نیز حدیث میں اللہ کے حکم سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے جو اللہ کے حکم پر مبنی ہوتی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ترک ثابت نہیں اگرچہ اس روایت میں تین دفعہ ناک صاف کرنے کا حکم نہیں ہے تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو وضو کرتے وقت ناک کو تین دفعہ صاف کرے کیونکہ شیطان اس کے خیشوم میں شب باشی کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3295) ناک صاف کرتے وقت بعض روایات میں طاق عدد کا لحاظ رکھنے کا حکم ہے۔ (مسند حمیدي، حدیث: 957) لیکن یہ حکم وجوب کے لیے نہیں ہے کیونکہ بعض روایات میں جفت عدد پراکتفا بھی ثابت ہے۔(سنن أبي داؤد، الطھارة، حدیث: 141) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ناک صاف کرنے کو کلی کرنے سے پہلے بیان فرمایا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ منہ کی نسبت ناک میں زیادہ تستر (پوشیدگی) ہے۔ گویا منہ ظاہر ہے اور ناک اس کا باطن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر کی صفائی بھی ضروری ہے لیکن باطن کی تطہیر زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام صاحب کے نزدیک وضو کرتے وقت اعضاء کے دھونے میں ترتیب ضروری نہیں اس لیے اسے مقدم کیا ہے لیکن یہ بات قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی۔
ترجمۃ الباب:
اسے حضرت عثمان، حضرت عبداللہ بن زید اور حضرت ابن عباس ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا انھیں یونس نے زہری کے واسطے سے خبر دی، کہا انھیں ابوادریس نے بتایا، انھوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا، وہ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا، جو شخص وضو کرے اسے چاہیے کہ ناک صاف کرے اور جو پتھر سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد (یعنی ایک یا تین یا پانچ ہی) سے کرے۔
حدیث حاشیہ:
مٹی کے ڈھیلے بھی پتھر ہی میں شمار ہیں بلکہ ان سے صفائی زیادہ ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever performs ablution should clean his nose with water by putting the water in it and then blowing it out, and whoever cleans his private parts with stones should do it with odd number of stones."