Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To clean the private parts with odd number of stones)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
165.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے اور اسے صاف کرے۔ اور جو شخص ڈھیلے سے استنجا کرے تو طاق ڈھیلوں سے کرے۔ اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو وضو کے پانی میں اپنے ہاتھ ڈالنے سے پہلے انہیں دھو لے کیونکہ تم میں سے کسی کو خبر نہیں کہ رات کے وقت اس کا ہاتھ کہاں کہاں پھرتا رہا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصود یہ ہے کہ جب استنجا کے لیے ڈھیلوں کا استعمال کیا جائے تو طاق عدد اختیار کرنا چاہیے نیز وہ بتانا چاہتےہیں کہ استجمار کے معنی استنجا میں ڈھیلوں کا استعمال ہی ہے۔ اس کا مطلب رمی جمار یا کفن کو دھونی دینا نہیں جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے۔ (فتح الباري: 344/1)۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے استنجا کے مسائل سے فراغت کے بعد وضو کے احکام شروع فرمائے تھے۔ اب انھوں نے دوبارہ استنجاء کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جب کسی حدیث میں کوئی نئی چیز دیکھتے ہیں تو اس پر ایک عنوان قائم کردیتے ہیں اسے باب درباب کہا جاتا ہے چونکہ باب سابق جو وضو سے متعلق ہے اس کے تحت جو حدیث ذکر کی تھی اس میں یہ الفاظ تھے۔’’جو ڈھیلے سے استنجا کرے وہ طاق ڈھیلے لے۔‘‘بس انہی الفاظ کی مناسبت سے یہ عنوان قائم کردیا اگرچہ وضو سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے نیز اس طرف بھی اشارہ ہے کہ استنجا اور استنشار میں گندگی کی صفائی قدر مشترک ہے اس لحاظ سے طاق تعداد بھی مشترک ہونی چاہیے۔ 3۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عرب میں قضائے حاجت کے بعد مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنے کا رواج تھا پھر رات سخت گرمی میں پسینہ آنے کے بعد محل نجاست پر بحالت نیند ہاتھ لگنے کا اندیشہ رہتا یا اس کے علاوہ جسم کے کسی ایسے مقام پر لگنے کا بھی احتمال ہے جو انسان کے لیے ناگواری کا باعث ہو۔ اس لیے نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہاتھ برتن میں ڈالنے سے پہلے دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔اس پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ہاتھوں کو دھونے کا حکم کیوں ہے؟ جبکہ سوئے ہوئے آدمی کے زیر استعمال کپڑے کے ملوث ہونے کے زیادہ خدشات ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کپڑوں کو پانی میں ڈالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور پھر اگر کپڑا آلودہ ہو جائے تو اس کا نقصان صرف کپڑا پہننے والے تک محدود ہوتا ہے جبکہ ہاتھ پلید ہونے کی صورت میں پانی کے خراب ہونے کا خدشہ ہے جس سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں گے۔ اس لیے ہاتھوں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔(فتح الباري: 347/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
164
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
162
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
162
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
162
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے اور اسے صاف کرے۔ اور جو شخص ڈھیلے سے استنجا کرے تو طاق ڈھیلوں سے کرے۔ اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو وضو کے پانی میں اپنے ہاتھ ڈالنے سے پہلے انہیں دھو لے کیونکہ تم میں سے کسی کو خبر نہیں کہ رات کے وقت اس کا ہاتھ کہاں کہاں پھرتا رہا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصود یہ ہے کہ جب استنجا کے لیے ڈھیلوں کا استعمال کیا جائے تو طاق عدد اختیار کرنا چاہیے نیز وہ بتانا چاہتےہیں کہ استجمار کے معنی استنجا میں ڈھیلوں کا استعمال ہی ہے۔ اس کا مطلب رمی جمار یا کفن کو دھونی دینا نہیں جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے۔ (فتح الباري: 344/1)۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے استنجا کے مسائل سے فراغت کے بعد وضو کے احکام شروع فرمائے تھے۔ اب انھوں نے دوبارہ استنجاء کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جب کسی حدیث میں کوئی نئی چیز دیکھتے ہیں تو اس پر ایک عنوان قائم کردیتے ہیں اسے باب درباب کہا جاتا ہے چونکہ باب سابق جو وضو سے متعلق ہے اس کے تحت جو حدیث ذکر کی تھی اس میں یہ الفاظ تھے۔’’جو ڈھیلے سے استنجا کرے وہ طاق ڈھیلے لے۔‘‘بس انہی الفاظ کی مناسبت سے یہ عنوان قائم کردیا اگرچہ وضو سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے نیز اس طرف بھی اشارہ ہے کہ استنجا اور استنشار میں گندگی کی صفائی قدر مشترک ہے اس لحاظ سے طاق تعداد بھی مشترک ہونی چاہیے۔ 3۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عرب میں قضائے حاجت کے بعد مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنے کا رواج تھا پھر رات سخت گرمی میں پسینہ آنے کے بعد محل نجاست پر بحالت نیند ہاتھ لگنے کا اندیشہ رہتا یا اس کے علاوہ جسم کے کسی ایسے مقام پر لگنے کا بھی احتمال ہے جو انسان کے لیے ناگواری کا باعث ہو۔ اس لیے نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہاتھ برتن میں ڈالنے سے پہلے دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔اس پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ہاتھوں کو دھونے کا حکم کیوں ہے؟ جبکہ سوئے ہوئے آدمی کے زیر استعمال کپڑے کے ملوث ہونے کے زیادہ خدشات ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کپڑوں کو پانی میں ڈالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور پھر اگر کپڑا آلودہ ہو جائے تو اس کا نقصان صرف کپڑا پہننے والے تک محدود ہوتا ہے جبکہ ہاتھ پلید ہونے کی صورت میں پانی کے خراب ہونے کا خدشہ ہے جس سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں گے۔ اس لیے ہاتھوں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔(فتح الباري: 347/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے ابوالزناد کے واسطے سے خبر دی، وہ اعرج سے، وہ ابوہریرہ ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی دے پھر (اسے) صاف کرے اور جو شخص پتھروں سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ بے جوڑ عدد (یعنی ایک یا تین) سے استنجاء کرے اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے، تو وضو کے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے۔ کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If anyone of you performs ablution he should put water in his nose and then blow it out and whoever cleans his private parts with stones should do so with odd numbers. And whoever wakes up from his sleep should wash his hands before putting them in the water for ablution, because nobody knows where his hands were during sleep."