تشریح:
حدیث میں ایڑیوں کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ اس وقت ان سے متعلقہ صورت حال سامنے آئی تھی بصورت دیگر اس سے مراد ہر وہ عضو وضو ہے جسے اچھی طرح دھونے میں عام طور پر بے پروائی یا سستی سے کام لیا جاتا ہے مثلاً ایڑیاں اور پاؤں کا نچلا حصہ وغیرہ چنانچہ حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خشک ایڑیوں اور پاؤں کے تلوؤں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔‘‘(مسند أحمد: 191/4) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن سیرین کا عمل اسی مقصد کے لیے بیان فرمایا ہے کیونکہ بعض اوقات انگوٹھی تنگ ہوتی ہے اور سہولت کے ساتھ پانی نہیں پہنچ پاتا، اس لیے آپ اسے حرکت دیتے۔ (فتح الباري: 350/1) اسی طرح عام طور پر عورتیں اپنے چہرے کے میک اپ کے لیے ایسی اشیاء استعمال کرتی ہیں کہ اعضائے وضو تک پانی پہنچانے کے لیے ان کی جمی ہوئی تہ رکاوٹ بن جاتی ہے مثلاً: ہونٹوں کے لیے لپ سٹک، چہرے کے لیے تہ دار پاؤڈر اور ناخن پالش وغیرہ لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ ایسے سامان زیبائش کے استعمال سے اجتناب کریں جو اعضائے وضو کی جلد تک پانی پہنچانے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہو۔ ہاں مخصوص ایام میں اپنے خاوند کے لیے اس طرح کا سامان زینت استعمال کرنے میں چنداں حرج نہیں۔