تشریح:
(1) جب حائضہ عورت کو مقام نماز سے الگ رہنے کا حکم ہے تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کے لیے جائز نہ ہو گا اور نہ وہ بیت اللہ کا طواف ہی کر سکتی ہے جیسا کہ عنوان کا موضوع ہے۔ (2) بعض حضرات نے کہا ہے کہ جب حائضہ عورت عرفات میں حاضر ہو سکتی ہے، مزدلفہ جا سکتی ہے اور منیٰ میں رہتے ہوئے کنکریاں مار سکتی ہے، یعنی بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام ارکان حج ادا کر سکتی ہے تو وہ صفا و مروہ کی سعی بھی کر سکتی ہے کیونکہ صفا و مروہ عرفات کی طرح ہے، لیکن یہ استدلال اس بنا پر محل نظر ہے کہ محض صفا و مروہ کی سعی سے کیا حاصل ہو گا جبکہ اس سے پہلے طواف نہ کیا ہو؟ جب حائضہ عورت طواف نہیں کر سکتی تو صفا و مروہ کی سعی کرنے کی اسے کیونکر اجازت دی جا سکتی ہے؟ پھر آج جبکہ صفا و مروہ کو مسجد حرام کا حصہ بنا دیا گیا ہے، ایسے حالات میں حائضہ عورت صفا و مروہ کی سعی نہیں کر سکتی۔ واللہ اعلم۔ (3) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ ام عطیہ ؓ نے فرمایا: حائضہ عورت میدان عرفات اور فلاں فلاں جگہ پر حاضری نہیں دیتی، اسی طرح حضرت جابر ؓ کی روایت میں ہے کہ حائضہ عورت بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام مناسک حج ادا کر سکتی ہے، ان دونوں کا مصداق ایک ہے اور اسی سے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کا پہلا جز ثابت ہوتا ہے کیونکہ جب اسے جائے نماز سے الگ رہنے کا حکم ہے تو مسجد بلکہ مسجد حرام بلکہ کعبہ سے ایک طرف رہنا بالاولیٰ ثابت ہوا۔ (فتح الباري: 638/3)