تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ مقام نمرہ میں وقوف کی جگہ جلدی پہنچنا چاہیے۔ نمرہ ایک جگہ کا نام ہے جو حرم کے بیرونی کنارے اور عرفات کے کنارے کے درمیان ہے۔ یہاں امام قیام کرتا ہے، اسی جگہ پر رسول الله ﷺ کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس دن رسول اللہ ﷺ نے ظہر اول وقت میں ادا کی، پھر نماز عصر اس کے متصل بعد پڑھا دی۔ اس کے بعد غروب آفتاب تک آپ نے وہاں وقوف فرمایا۔ (2) یہ وقوف حج کا رکن ہے۔ اس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ یہ وقوف عین گرمی کے وقت دوپہر کے بعد ہی شروع کر دینا چاہیے، نیز وقوف سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نویں ذوالحجہ کو نماز فجر منیٰ میں ادا فرمائی، طلوع آفتاب کے بعد میدان عرفات کو روانہ ہوئے۔ آپ کے لیے مقام نمرہ میں خیمہ لگا دیا گیا تھا، وہاں قیام فرمایا، زوال آفتاب کے بعد آپ نے ظہر اور عصر کو جمع کر کے ادا فرمایا، پھر لوگوں کو خطبہ دیا اور وقوف عرفہ کے لیے بطن وادی میں تشریف لے آئے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1913) حضرت سالم بن عبداللہ ؒ نے بھی حجاج بن یوسف کو اس پر مجبور کیا کہ اگر سنت کی پیروری کا ارادہ ہے تو جلدی چلو۔ (فتح الباري:645/3)