تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں جب مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھی جائیں تو ہر ایک کے لیے الگ اذان اور الگ اقامت مشروع ہے۔ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے مزدلفہ میں دو نمازیں پڑھیں تو ہر نماز کے لیے اذان اور اقامت کہ، درمیان میں کھانا تناول فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے دوسری نماز کے لیے اذان اور اقامت اس لیے کہی تھی کہ نماز مغرب کے بعد لوگ کھانا کھانے کے بعد ادھر ادھر چلے گئے تھے، انہیں اکٹھا کرنے کے لیے اذان اور اقامت کہی تھی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس تاویل کو تکلف قرار دیا ہے۔ اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے پیش نظر امام مالک ؒ نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء کے لیے الگ الگ اذان اور اقامت کو مشروع قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے بھی اس موقف کو اختیار کیا ہے لیکن صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ جمع کیا تھا۔ (فتح الباري:663/3) ہمارے نزدیک اسی کو ترجیح ہے، البتہ جائز ہے کہ ہر نماز کے لیے الگ اذان اور الگ تکبیر کہی جائے۔ (2) اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے مغرب کے بعد دو رکعت پڑھیں لیکن رسول اللہ ﷺ سے نہ پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اس بنا پر رسول اللہ ﷺ کا عمل افضل اور راجح ہے۔ ہاں، اگر کوئی مغرب کے بعد سنت پڑھ لے گا تو اسے گناہ گار نہیں کہا جا سکتا۔ واللہ أعلم۔