Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To shorten the Khutbah the Day of 'Arafat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1680.
حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ حج کے معاملات میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی پیروی کرے، چنانچہ جب عرفہ کا دن تھا تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ زوال آفتاب کے بعد آئے۔ میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ انھوں نے حجاج کے خیمے کے پاس آکر بلند آواز سے کہا: یہ کہاں ہے؟ حجاج باہر نکلاتو حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: عرفات کی طرف چلیں۔ حجاج بولا: ابھی چلنا ہے؟فرمایا: ہاں۔ حجاج نے کہا: مجھے تھوڑی سی مہلت دیں کہ میں اپنے سر پر پانی بہالوں۔ حضرت عبداللہ بن عمر سواری سے اتر کر انتظار کرنے لگے یہاں تک کہ وہ باہر نکلا اور میرے اور میر ے والد گرامی کے درمیان چلنے لگا۔ میں نے اسے کہا: اگر سنت کو پانا چاہتے ہوتو آج خطبہ مختصر کرو اور وقوف میں جلدی کرو۔ حضرت ابن عمر نےفرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔
تشریح:
(1) خطبہ مختصر اور جامع ہونا خطیب کی سمجھداری کی علامت ہے، عیدین کا ہو یا جمعے کا۔ حج کا خطبہ تو انتہائی جامع اور مختصر ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ میں مسلمان کے خون اور مال کی حرمت و تقدس کو شہر مکہ، ماہ ذوالحجہ اور یوم عرفہ کی حرمت کے مساوی قرار دیا۔ جاہلیت کے بعض اعمال فاسدہ اور عقائد باطلہ کا خاتمہ فرمایا اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کی تلقین کی۔ (حجۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی:72) (2) واضح رہے کہ خطبہ نماز سے پہلے ہے، لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر کی نماز کو جمع کیا، پھر لوگوں کو خطبہ دیا۔ (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1913) البتہ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرفات پہنچنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا، پھر کسی نے اذان دی اور اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر اقامت کہی تو نماز عصر پڑھی۔ ان دونوں کے درمیان کچھ نہ پڑھا، (صحیح مسلم،الحج،حدیث:2950(1218)) اس لیے صحیح مسلم کی روایت کو ابوداود کی حدیث پر ترجیح دیتے ہوئے خطبہ نماز سے پہلے پڑھنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1617
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1663
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1663
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1663
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ حج کے معاملات میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی پیروی کرے، چنانچہ جب عرفہ کا دن تھا تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ زوال آفتاب کے بعد آئے۔ میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ انھوں نے حجاج کے خیمے کے پاس آکر بلند آواز سے کہا: یہ کہاں ہے؟ حجاج باہر نکلاتو حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: عرفات کی طرف چلیں۔ حجاج بولا: ابھی چلنا ہے؟فرمایا: ہاں۔ حجاج نے کہا: مجھے تھوڑی سی مہلت دیں کہ میں اپنے سر پر پانی بہالوں۔ حضرت عبداللہ بن عمر سواری سے اتر کر انتظار کرنے لگے یہاں تک کہ وہ باہر نکلا اور میرے اور میر ے والد گرامی کے درمیان چلنے لگا۔ میں نے اسے کہا: اگر سنت کو پانا چاہتے ہوتو آج خطبہ مختصر کرو اور وقوف میں جلدی کرو۔ حضرت ابن عمر نےفرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) خطبہ مختصر اور جامع ہونا خطیب کی سمجھداری کی علامت ہے، عیدین کا ہو یا جمعے کا۔ حج کا خطبہ تو انتہائی جامع اور مختصر ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ میں مسلمان کے خون اور مال کی حرمت و تقدس کو شہر مکہ، ماہ ذوالحجہ اور یوم عرفہ کی حرمت کے مساوی قرار دیا۔ جاہلیت کے بعض اعمال فاسدہ اور عقائد باطلہ کا خاتمہ فرمایا اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کی تلقین کی۔ (حجۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی:72) (2) واضح رہے کہ خطبہ نماز سے پہلے ہے، لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر کی نماز کو جمع کیا، پھر لوگوں کو خطبہ دیا۔ (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1913) البتہ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرفات پہنچنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا، پھر کسی نے اذان دی اور اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر اقامت کہی تو نماز عصر پڑھی۔ ان دونوں کے درمیان کچھ نہ پڑھا، (صحیح مسلم،الحج،حدیث:2950(1218)) اس لیے صحیح مسلم کی روایت کو ابوداود کی حدیث پر ترجیح دیتے ہوئے خطبہ نماز سے پہلے پڑھنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے کہ عبدالملک بن مروان (خلیفہ ) نے حجاج کو لکھا کہ حج کے کاموں میں عبداللہ بن عمر ؓ کی اقتدا کرے۔ جب عرفہ کا دن آیا تو عبداللہ بن عمر ؓ آئے میں بھی آپ کے ساتھ تھا، سورج ڈھل چکا تھا، آپ نے حجاج کے ڈیرے کے پاس آکر بلند آواز سے کہا حجاج کہا ہے؟ حجاج باہر نکلا تو ابن عمر ؓ نے فرمایا چل جلدی کر وقت ہو گیا۔ حجاج نے کہا ابھی سے؟ ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ ہاں۔ حجاج بولا کہ پھر تھوڑی مہلت دے دیجئے، میں ابھی غسل کرکے آتا ہوں۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ (اپنی سواری سے ) اتر گئے۔ حجاج باہر نکلا اور میرے اور میرے والد (ابن عمر ) کے بیچ میں چلنے لگا، میں نے اس سے کہا کہ آج اگر سنت پر عمل کی خواہش ہے تو خطبہ مختصر پڑھ اور وقوف میں جلدی کر۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ سالم سچ کہتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
خطبہ مختصر پڑھنا خطیب کی سمجھ داری کی دلیل ہے، عیدین ہو یا جمعہ، پھر حج کا خطبہ تو اور بھی مختصر ہونا چاہئے کہ یہی سنت نبوی ہے۔ جو محترم علمائے کرام خطبات جمعہ وعیدین میں طویل طویل خطبات دیتے ہیں ان کو سنت نبوی کا لحاظ رکھنا چاہئے جو ان کی سمجھ بوجھ کی دلیل ہوگی۔ و باللہ التوفیق
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim bin 'Abdullah bin 'Umar (RA): 'Abdul-Malik bin Marwan wrote to Al-Hajjaj that he should follow 'Abdullah bin 'Umar in all the ceremonies of Hajj. So when it was the Day of 'Arafat (9th of Dhul-Hajja), and after the sun has deviated or has declined from the middle of the sky, I and Ibn 'Umar (RA) came and he shouted near the cotton (cloth) tent of Al-Hajjaj, "Where is he?" Al-Hajjaj came out. Ibn 'Umar (RA) said, "Let us proceed (to 'Arafat)." Al-Hajjaj asked, "Just now?" Ibn 'Umar (RA) replied, "Yes." Al-Hajjaj said, "Wait for me till I pour water on me (i.e. take a bath)." So, Ibn 'Umar (RA) dismounted (and waited) till Al-Hajjaj came out. He was walking between me and my father. I informed Al-Hajjaj, "If you want to follow the Sunna today, then you should shorten the sermon and then hurry up for the stay (at 'Arafat)." Ibn 'Umar (RA) said, "He (Salim) has spoken the truth."