تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ قربانی کے متعلق مسنون طریقہ یہ ہے کہ اسے "حِل" (حدود حرم کے باہر) سے اپنے ساتھ لائے۔ اگر حرم سے خریدے تو حج کرنے کے لیے جب عرفہ جائے تو بہتر ہے کہ اسے ساتھ لے جائے جبکہ کچھ حضرات کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو اس لیے "حِل" سے قربانی ساتھ لائے تھے کہ آپ کا گھر حدود حرم سے باہر تھا، اس لیے حل سے قربانی ساتھ لے کر جانا مسنون عمل نہیں۔ بہرحال میقات اور بعید مقامات سے قربانی ساتھ لے کر جانا مسنون عمل ہے جسے آج اکثر لوگوں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ (فتح الباري:682/3) (2) اس مقام پر لفظ تمتع سے مراد حج قران ہے کہ انہوں نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرے کا فائدہ حاصل کر لیا۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے پہلے حج کا احرام باندھا تھا، پھر عمرے کو اس میں شریک کر لیا۔ لغت اور معنی کے اعتبار سے قارن پر متمتع کا اطلاق جائز ہے کیونکہ اس میں ایک میقات، ایک احرام اور ایک جیسے اعمال حج سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ حج تمتع میں عمرے کے بعد احرام کھول کر بیوی سے تمتع کیا جا سکتا ہے اور حج قران میں عمرے کو حج کے ساتھ ایک ہی احرام میں جمع کرنے کا فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ دوسری احادیث کے پیش نظر یہ تاویل انتہائی ناگزیر ہے۔ واللہ أعلم