باب:اس بیان میں کہ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: To love the Ansar is a sign of faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
17.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’ایمان کی نشانی انصار سے محبت رکھنا اور نفاق کی نشانی انصار سے بغض رکھنا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔انصار، مدینہ منورہ کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں پناہ دی اور ایسے وقت میں آپ کا ساتھ دیا جب اورکوئی قوم آپ کی مدد کے لیے تیار نہ تھی۔اس نازک وقت میں اگر اہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے کھڑے نہ ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا۔ پہلے یہ لوگ بنو قیلہ کے نام سے مشہور تھے۔ دین اسلام اور اہل اسلام کی مدد کرنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا لقب انصاررکھا۔ اس حدیث میں انصار سے آپ کے مددگار اور معاون کی حیثیت سے محبت کرنا مراد ہے، شخصی طور پر کسی سے اختلاف اورجھگڑا اس محبت کے منافی نہیں ہے۔ 2۔ مہاجرین نے اسلام کے لیے اپنے مالوف وطن کو قربان کیا، اموال واملاک کی پروانہ کی اور تمام آرائش وآسائش سے روگردانی کی۔ خود ہجرت کی اتنی فضیلت ہے کہ دوسری کوئی فضیلت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ہجرت(کی فضیلت) نہ ہوتی تو میں اپنا شمار انصار میں کراتا۔ (صحیح البخاري، أخبار الآحاد، حدیث: 7244) اس لیے اتنی قربانیاں دینے والوں کے متعلق تو کوئی بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ان کی محبت میں کوئی ابہام نہیں، البتہ انصار کے متعلق غیریت کاخیال کیا جا سکتا تھا، اس لیے آپ نے فرمایا کہ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے، یعنی انصار سے اس اعتبارسے محبت کرنا کہ انھوں نے دین اسلام کی نصرت وتائید کی ہے۔ ایسے حالات میں ان سے وہی محبت رکھ سکتا ہے جسے دین اور صاحب دین سے محبت ہوگی اور اسی طرح ان سے بغض وہی رکھے گا جسے دین اور صاحب دین سے بغض ہوگا۔ واضح رہے کہ انصار سے محبت وبغض کے متعلق ان کی سرفروشانہ خدمات اور شان نصرت کو ضرور ملحوظ رکھا جائے۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ تصدیق قلبی کے ساتھ اس کے اثرات اور دیگر اعمال بھی ضروری ہیں، اخروی نجات کے لیے ان کا ہونا ضروری ہے، ان میں ایک حب انصار بھی ہے۔ اس حدیث سے: (الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ) والی حدیث کی بھی تائید ہوتی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انصار کی محبت کو ایمان کا حصہ قراردیا ہے، چنانچہ مناقب انصار میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (آيَةُ الإيمَانِ حُبُّ الأنْصَارِ) ’’انصار کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ حدیث میں ہے کہ جو انصار سے محبت کرے گا،اللہ اس سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3783)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
17
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
17
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
17
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
17
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’ایمان کی نشانی انصار سے محبت رکھنا اور نفاق کی نشانی انصار سے بغض رکھنا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔انصار، مدینہ منورہ کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں پناہ دی اور ایسے وقت میں آپ کا ساتھ دیا جب اورکوئی قوم آپ کی مدد کے لیے تیار نہ تھی۔اس نازک وقت میں اگر اہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے کھڑے نہ ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا۔ پہلے یہ لوگ بنو قیلہ کے نام سے مشہور تھے۔ دین اسلام اور اہل اسلام کی مدد کرنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا لقب انصاررکھا۔ اس حدیث میں انصار سے آپ کے مددگار اور معاون کی حیثیت سے محبت کرنا مراد ہے، شخصی طور پر کسی سے اختلاف اورجھگڑا اس محبت کے منافی نہیں ہے۔ 2۔ مہاجرین نے اسلام کے لیے اپنے مالوف وطن کو قربان کیا، اموال واملاک کی پروانہ کی اور تمام آرائش وآسائش سے روگردانی کی۔ خود ہجرت کی اتنی فضیلت ہے کہ دوسری کوئی فضیلت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ہجرت(کی فضیلت) نہ ہوتی تو میں اپنا شمار انصار میں کراتا۔ (صحیح البخاري، أخبار الآحاد، حدیث: 7244) اس لیے اتنی قربانیاں دینے والوں کے متعلق تو کوئی بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ان کی محبت میں کوئی ابہام نہیں، البتہ انصار کے متعلق غیریت کاخیال کیا جا سکتا تھا، اس لیے آپ نے فرمایا کہ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے، یعنی انصار سے اس اعتبارسے محبت کرنا کہ انھوں نے دین اسلام کی نصرت وتائید کی ہے۔ ایسے حالات میں ان سے وہی محبت رکھ سکتا ہے جسے دین اور صاحب دین سے محبت ہوگی اور اسی طرح ان سے بغض وہی رکھے گا جسے دین اور صاحب دین سے بغض ہوگا۔ واضح رہے کہ انصار سے محبت وبغض کے متعلق ان کی سرفروشانہ خدمات اور شان نصرت کو ضرور ملحوظ رکھا جائے۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ تصدیق قلبی کے ساتھ اس کے اثرات اور دیگر اعمال بھی ضروری ہیں، اخروی نجات کے لیے ان کا ہونا ضروری ہے، ان میں ایک حب انصار بھی ہے۔ اس حدیث سے: (الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ) والی حدیث کی بھی تائید ہوتی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انصار کی محبت کو ایمان کا حصہ قراردیا ہے، چنانچہ مناقب انصار میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (آيَةُ الإيمَانِ حُبُّ الأنْصَارِ) ’’انصار کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ حدیث میں ہے کہ جو انصار سے محبت کرے گا،اللہ اس سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3783)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اس حدیث کو ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، انھیں عبداللہ بن جبیر نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انس بن مالک ؓ سے اس کو سنا، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
امام عالی مقام نے یہاں بھی مرجیہ کی تردید کے لیے اس روایت کونقل فرمایا ہے۔ انصار اہل مدینہ کا لقب ہے جو انھیں مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کی امداد واعانت کے صلہ میں دیاگیا۔ جب رسول اللہ ﷺنے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آپ کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مدینہ آگئی تو اس وقت مدینہ کے مسلمانوں نے آپ کی اور دیگر مسلمانوں کی جس طرح امداد فرمائی۔ تاریخ اس کی نظیرپیش کرنے سے عاجز ہے۔ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو اللہ کی طرف سے اس طرح قبول کیا گیا کہ قیامت تک مسلمان ان کا ذکر انصار کے معزز نام سے کرتے رہیں گے۔ اس نازک وقت میں اگراہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے نہ کھڑے ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ اسی لیے انصار کی محبت ایمان کا جزو قرار پائی۔ قرآن پاک میں بھی جابجا انصار ومہاجرین کا ذکر خیرہوا ہے اور رضی الله عنهم ورضوا عنه سے ان کو یاد کیا گیا ہے۔ انصار کے مناقب وفضائل میں اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جن کا ذکر موجب طوالت ہوگا۔ ان کے باہمی جنگ وجدال کے متعلق علامہ ابن حجرفرماتے ہیں: "وإنما کان حالهم في ذلك حال المجتهدین في الأحکام للمصیب أجران وللمخطی أجر واحد."واللہ أعلم یعنی اس بارے میں ان کو ان مجتہدین کے حال پر قیاس کیاجائے گا جن کا اجتہاد درست ہو توان کو دوگنا ثواب ملتا ہے اور اگران سے خطا ہوجائے تو بھی وہ ایک ثواب سے محروم نہیں رہتے۔ المجتهد قد يخطئ ويصيب ہمارے لیے یہی بہتر ہوگا کہ اس بارے میں زبان بند رکھتے ہوئے ان سب کو عزت سے یاد کریں۔ انصار کے فضائل کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنے بارے میں فرمایا: «لَوْلاَ الهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ»(بخاری شریف) اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں بھی اپنا شمار انصار ہی میں کراتا۔ اللہ پاک نے انصار کو یہ عزت عطا فرمائی کہ قیامت تک کے لیے آنحضرت ﷺ ان کے شہرمدینہ میں ان کے ساتھ آرام فرما رہے ہیں۔ایک بار آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر سب لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصارہی کی وادی کو اختیار کروں گا۔ اس سے بھی انصار کی شان ومرتبت کا اظہار مقصود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Love for the Ansar is a sign of faith and hatred for the Ansar is a sign of hypocrisy".