تشریح:
(1) طواف افاضہ کے بعد ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنی چاہئیں اور ان دنوں زوال آفتاب کے بعد تین جمرات کو رمی کی جائے اور اللہ کا ذکر کیا جائے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ طواف افاضہ کرنے کے بعد منیٰ کی طرف لوٹے اور ایام تشریق کی راتیں وہیں بسر کیں۔ اس دوران میں جب سورج ڈھل جاتا تو آپ جمرات کو کنکریاں مارتے۔ جمہور علماء کے نزدیک ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا ضروری ہیں کیونکہ یہ عمل مناسک حج میں سے ہے اور مناسک حج پر عمل کرنا واجب ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دنوں فرمایا تھا: ’’مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘ (2) امام بخاری ؒ نے صرف ضرورت مند حضرات کے لیے مکہ میں رات گزارنے کی اجازت کو ثابت کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عذر نہ ہو تو منیٰ میں ایام تشریق کی راتیں گزارنا ضروری ہیں، اجازت طلب کرنے اور رخصت دینے کا مطلب بھی یہی ہے۔ یہ اجازت کسی ضرورت کے پیش نظر ہے جیسا کہ حضرت عباس ؓ نے حاجیوں کو پانی پلانے کا بندوبست کرنا تھا، اس لیے انہوں نے اجازت طلب کی اور رسول اللہ ﷺ نے رخصت دے دی، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اونٹوں کے چرواہوں کو منیٰ سے باہر رات گزارنے کی اجازت دی۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1975) یہ ضرورت عام ہے، خواہ پانی پلانے کا بندوبست کرنا ہو یا بیماری وغیرہ لاحق ہو۔ اگر کوئی دو دن قیام کے بعد واپس لوٹ آئے تو اس کی بھی اجازت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاذْكُرُوا اللَّـهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ﴾ ’’اور ان گنتی کے دنوں میں اللہ کو یاد کرو پھر جس نے دو دنوں (منیٰ سے مکے کی طرف واپسی) میں جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ (البقرة:203:2) (3) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں تین روایات پیش کی ہیں۔ پہلی روایت کا متن علامہ اسماعیلی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباس ؓ کو پانی پلانے کا بندوبست کرنے کی وجہ سے ایام تشریق کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت دی۔ اسی طرح دوسری روایت کے متن کو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ (مسندأحمد:19/2) ابو اسامہ کی متابعت کو امام مسلم نے، عقبہ بن خالد کى متابعت کو عثمان بن ابی شیبہ نے اپنی مسند میں اور ابو ضمرہ انس بن عیاض کی متابعت کو خود امام بخاری ؒ نے باب سقایۃ الحاج، حدیث: 1634 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:730/3)