Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: If a dog drinks from the utensil of any one of you then it is essential to wash it seven times)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
178.
حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ سے (کتے کے شکار کے متعلق) دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو چھوڑے اور وہ شکار کرے تو اسے کھا لے۔ اگر وہ کتا خود اس سے کچھ کھا لے تو اسے مت کھا، کیونکہ اب اس نے شکار اپنے لیے کیا ہے۔‘‘ میں نے پھر عرض کیا: بعض دفعہ میں اپنے کتے کو شکار کے لیے چھوڑتا ہوں، پھر اس کے ساتھ کسی دوسرے کتے کو بھی پاتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ایسے شکار کو مت کھا کیونکہ تو نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی، دوسرے کتے پر نہیں پڑھی۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسری روایت میں وضاحت فرمائی ہے کہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتوں سے شکار کرنے کے متعلق دریافت کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث:5487) لیکن اس مقام پر اس حدیث کے بیان کرنے کا مقصد شکار کے احکام ومسائل بتانا نہیں بلکہ کتے کے لعاب کو پاک کہنے والوں کے دلائل بیان کرنا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ دلالت صحیح ہے یا غلط، لعابِ کلب کو طاہر کہنے والوں کا استدلال بایں طور ہے کہ اگر وہ نجس ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرورحکم دیتے کہ کتے نے جس جس جگہ سے شکار کے جانور کوپکڑا ہے ان تمام مقامات کو دھویا جائے، کیونکہ وہاں لعاب لگا ہو گا۔ آپ نے ایسا حکم نہیں دیا، لہٰذا یہ پاک ہے، حالانکہ یہ استدلال مبہمات میں سے ہے۔ صریح احادیث کی موجودگی میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ واضح احادیث میں سؤر کلب کو نجس قراردیا گیا ہے جس کی پہلے ہم وضاحت کر آئے ہیں، نیز یہ استدلال منطوق سے نہیں بلکہ مسکوت عنہ سے ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقامات کے دھونے سے سکوت فرمایا، اس لیے ان کی طہارت ثابت ہوئی، حالانکہ جس طرح آپ نے لعاب دھونے کا حکم نہیں دیا، اسی طرح زخموں سے بہنے والا خون صاف کرنے کا حکم بھی نہیں دیا، تو کیا اس خون کو بھی پاک قراردیا جائے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ شکار کرنے والوں کو یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ اس کا خون اور لعاب دھویا جاتا ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کتے کا لعاب نجس ہوتا تو اس کے شکار کوکھانے کا جواز نہ ہوتا، لیکن محدث اسماعیلی نے اس کا جواب دیا ہے کہ حدیث نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کتے کے شکار کو مار دینا اس کے ذبح کرنے کا قائم مقام ہے، اس میں نجاست کا ثبوت ہے نہ اس کی نفی ہی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم سے بہنے والے خون کو بھی دھونے کا حکم نہیں دیا اور جو بات پہلے سے طے شدہ تھی اسے ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی، اسی طرح لعاب کلب کی نجاست اور اس کے دھونے کی بات بھی دوسرے ارشادات کی روشنی میں طے شدہ تھی، لہٰذا اس کا ذکر نہیں فرمایا۔ (فتح الباري: 366/1) 2۔ جب کتے یا کسی اور جانور یا پرندے کو شکارکی ٹریننگ دی جاتی ہے تو یہ چیز اسے دوسرے جانوروں سے ممتاز کردیتی ہے، لہٰذا ایک عام کتے کے شکار اور سدھائے ہوئے کتے کے شکار میں بھی فرق ایک فطری امر ہے، بلکہ ایک مسلمان کے سدھائے ہوئے کتے اور غیر مسلم کے تربیت کردہ کتے کے میلان اور سلیقے میں بھی فرق آجاتا ہے۔ شکار کے متعلق دیگر مباحث آئندہ كتاب الذبائح والصید میں بیان ہوں گے، بہرحال کلب معلم کی حدیث پیش کرنے کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمومی طور پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لعاب کلب کی طہارت کے قائل نہیں ہیں۔ وھوالمقصود۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
176
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
175
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
175
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
175
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ سے (کتے کے شکار کے متعلق) دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو چھوڑے اور وہ شکار کرے تو اسے کھا لے۔ اگر وہ کتا خود اس سے کچھ کھا لے تو اسے مت کھا، کیونکہ اب اس نے شکار اپنے لیے کیا ہے۔‘‘ میں نے پھر عرض کیا: بعض دفعہ میں اپنے کتے کو شکار کے لیے چھوڑتا ہوں، پھر اس کے ساتھ کسی دوسرے کتے کو بھی پاتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ایسے شکار کو مت کھا کیونکہ تو نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی، دوسرے کتے پر نہیں پڑھی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسری روایت میں وضاحت فرمائی ہے کہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتوں سے شکار کرنے کے متعلق دریافت کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث:5487) لیکن اس مقام پر اس حدیث کے بیان کرنے کا مقصد شکار کے احکام ومسائل بتانا نہیں بلکہ کتے کے لعاب کو پاک کہنے والوں کے دلائل بیان کرنا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ دلالت صحیح ہے یا غلط، لعابِ کلب کو طاہر کہنے والوں کا استدلال بایں طور ہے کہ اگر وہ نجس ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرورحکم دیتے کہ کتے نے جس جس جگہ سے شکار کے جانور کوپکڑا ہے ان تمام مقامات کو دھویا جائے، کیونکہ وہاں لعاب لگا ہو گا۔ آپ نے ایسا حکم نہیں دیا، لہٰذا یہ پاک ہے، حالانکہ یہ استدلال مبہمات میں سے ہے۔ صریح احادیث کی موجودگی میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ واضح احادیث میں سؤر کلب کو نجس قراردیا گیا ہے جس کی پہلے ہم وضاحت کر آئے ہیں، نیز یہ استدلال منطوق سے نہیں بلکہ مسکوت عنہ سے ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقامات کے دھونے سے سکوت فرمایا، اس لیے ان کی طہارت ثابت ہوئی، حالانکہ جس طرح آپ نے لعاب دھونے کا حکم نہیں دیا، اسی طرح زخموں سے بہنے والا خون صاف کرنے کا حکم بھی نہیں دیا، تو کیا اس خون کو بھی پاک قراردیا جائے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ شکار کرنے والوں کو یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ اس کا خون اور لعاب دھویا جاتا ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کتے کا لعاب نجس ہوتا تو اس کے شکار کوکھانے کا جواز نہ ہوتا، لیکن محدث اسماعیلی نے اس کا جواب دیا ہے کہ حدیث نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کتے کے شکار کو مار دینا اس کے ذبح کرنے کا قائم مقام ہے، اس میں نجاست کا ثبوت ہے نہ اس کی نفی ہی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم سے بہنے والے خون کو بھی دھونے کا حکم نہیں دیا اور جو بات پہلے سے طے شدہ تھی اسے ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی، اسی طرح لعاب کلب کی نجاست اور اس کے دھونے کی بات بھی دوسرے ارشادات کی روشنی میں طے شدہ تھی، لہٰذا اس کا ذکر نہیں فرمایا۔ (فتح الباري: 366/1) 2۔ جب کتے یا کسی اور جانور یا پرندے کو شکارکی ٹریننگ دی جاتی ہے تو یہ چیز اسے دوسرے جانوروں سے ممتاز کردیتی ہے، لہٰذا ایک عام کتے کے شکار اور سدھائے ہوئے کتے کے شکار میں بھی فرق ایک فطری امر ہے، بلکہ ایک مسلمان کے سدھائے ہوئے کتے اور غیر مسلم کے تربیت کردہ کتے کے میلان اور سلیقے میں بھی فرق آجاتا ہے۔ شکار کے متعلق دیگر مباحث آئندہ كتاب الذبائح والصید میں بیان ہوں گے، بہرحال کلب معلم کی حدیث پیش کرنے کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمومی طور پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لعاب کلب کی طہارت کے قائل نہیں ہیں۔ وھوالمقصود۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے ابن ابی السفر کے واسطے سے بیان کیا، وہ شعبی سے نقل فرماتے ہیں، وہ عدی بن حاتم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (کتے کے شکار کے متعلق) دریافت کیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو چھوڑے اور وہ شکار کر لے تو، تُو اس (شکار) کو کھا اور اگر وہ کتا اس شکار میں سے خود (کچھ) کھالے تو، تُو (اس کو) نہ کھائیو۔ کیونکہ اب اس نے شکار اپنے لیے پکڑا ہے۔ میں نے کہا کہ بعض دفعہ میں (شکار کے لیے) اپنے کتے چھوڑتا ہوں، پھر اس کے ساتھ دوسرے کتے کو بھی پاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ پھر مت کھا۔ کیونکہ تم نے بسم اللہ اپنے کتے پر پڑھی تھی۔ دوسرے کتے پر نہیں پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی اصل بحث کتاب الصید میں آئے گی۔ إن شاءاللہ تعالیٰ۔ معلوم ہوا کہ عام کتوں کی نجاست کے حکم سے سدھائے ہوئے کتوں کے شکار کا استثناء ہے بشرائط معلومہ مذکورہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Adi bin Hatim (RA): I asked the Prophet (ﷺ) (about the hunting dogs) and he replied, "If you let loose (with Allah's name) your tamed dog after a game and it hunts it, you may eat it, but if the dog eats of (that game) then do not eat it because the dog has hunted it for itself." I further said, "Sometimes I send my dog for hunting and find another dog with it. He said, "Do not eat the game for you have mentioned Allah's name only on sending your dog and not the other dog."