تشریح:
1۔اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس لیے بیان فرمایا ہے کہ یہ خروج مذی سے وضو کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے اور اس کا خروج بھی بول وبراز کے راستے سے ہوتا ہے۔ مذی اس رطوبت کو کہتے ہیں جو بیوی سے بوس وکنار کرتے وقت عضو مستور سے خارج ہوتی ہے۔ اس کے آنے کی صورت میں طہارت کے لیے صرف وضو ہی کافی ہے، غسل کی ضرورت نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عقد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگرحضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں، اس رشتے داری کی وجہ سے خود پوچھنا مناسب نہ سمجھا، اس لیے حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے مسئلہ دریافت کیا۔ یہ حدیث پہلے (نمبر:132) کتاب العلم کے تحت گزر چکی ہے۔ وہاں دیگر فوائد دیکھے جاسکتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کتاب الغسل (حدیث:269) میں بھی بیان کیا ہے، اس روایت میں ہے:آپ نے فرمایا: ’’وضو کرے اور اپنے عضو مستور کو دھولے۔‘‘
2۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا براہ راست ایسے مسائل پوچھنے سے احتراز کرنا قابل تعریف وصف ہے۔ اس فعل سے معلوم ہوا کہ سسر کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اور اس کی موجودگی میں داماد کو چاہیے کہ بیوی سے دل لگی سے متعلق کوئی تذکرہ نہ کرے۔
3۔ حضرت مقداد کے والد کا نام عمرو بن ثعلبہ ہے۔ انھیں ابن اسود اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسود بن عبد یغوث نے ان کی تربیت کی تھی یا انھیں لے پالک بنایا تھا یا ان سے عقد حلف کیا تھا یا ان کی والدہ سے نکاح کیا تھا۔ پہلے پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ انھوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت فرمائی۔
4۔ آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کا ایک دوسرا طریق بیان فرمایا ہے کہ اس روایت کو امام اعمش سے حضرت شعبہ نے بھی بیان کیا ہے۔ اسے ابوداود طیالسی نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري: 370/1)