تشریح:
1۔ یہ بیعت، بیعت اسلام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے دین اسلام پر کاربند رہنے، ہجرت کرنے، میدان جہاد میں ثابت قدم رہنے، فواحش ومنکرات کو چھوڑنے، سنت پر عمل کرنے اور بدعات ورسوم سے دور رہنے کی بیعت لیتے تھے۔ انصار سے اسی قسم کی بیعت لی گئی اور وہ اس پر کاربند رہنے کی بنا پر انصار کہلانے کے حقدار ٹھہرے۔ اس کے علاوہ بیعت تصوف کا اسلام میں کوئی وجود نہیں، یہ بہت بعد کی پیداوار ہے۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔’’حدود گناہوں کا کفارہ ہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ حد شرعی قائم ہونے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6784) قرآن کریم کی بعض آیات میں اس بات کی صراحت ہے کہ حدود میں گناہ کی گندگی کو صاف کردینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔(النساء:92/4) اس کے برعکس مستدرک حاکم وغیرہ کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حدود کا کفارہ بننا معلوم نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وما أدري الحدود كفارات لأهلها أم لا؟" ’’مجھے معلوم نہیں کہ حدود گناہوں کاکفارہ بنتی ہیں یا نہیں؟‘‘(المستدرك للحاكم: 36/1۔ والصحیحة للألباني، حدیث: 2217) علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں یوں تطبیق دی ہے کہ ممکن ہے آپ نے یہ بات اس وقت کہی ہو جب آپ کو علم نہ ہو اور بعد میں علم ہوگیا ہو کہ حدود کفارہ بن جاتی ہیں تو پھرآپ نے اس کی وضاحت کردی ہوجیسا کہ حدیث باب سے ظاہر ہوتاہے۔ دیکھیے (الصحیحة للألباني: 252/5) پھر مذکورہ حدیث میں اس شخص سے تقابل کیا گیا ہے جس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، خواہ معاف کردے، خواہ سزادے۔ اس تقابل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو سزا دی گئی وہ بری ہوگیا۔
3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مرجیہ اور خوارج کی تردید کرنا مقصود ہے۔ اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اعمال مطلوب ہیں اور ایمان کی کمی بیشی پر اثر انداز ہوتے ہیں، نیز اعمال کی جزئیت اس درجے کی بھی نہیں، جس کا دعویٰ معتزلہ اور خوارج نے کیا کہ گناہ کرنے سے مومن ایمان سے خارج ہوجاتا ہے جبکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خارج نہیں ہوتا بلکہ گناہ کے باوجود بھی مغفرت کا معاملہ اللہ کی مشیت کے تحت رہتا ہے۔ اگر اس کی رحمت دستگیری فرمائے تو مغفرت بھی ہوسکتی ہے واضح رہے کہ مرجیہ کے مقابلے میں معتزلہ اور خوارج کی تردید کم ہے کیونکہ ان کا موقف دنیاوی لحاظ سے چنداں نقصان دہ نہیں۔ ان کے ہاں اعمال کے متعلق بہت شدت پائی جاتی ہے۔ وہ اعمال کو اس لیے ترک نہیں کرتے کہ مبادا اسلام سے خارج ہوجائیں۔
4۔ گناہ کبیرہ کا مرتکب اگرتوبہ کیے بغیر مرجائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے چاہے تو ایمان کی برکت سے سزا دئیے بغیر اسے جنت میں داخل کردے یا سزا دے کر جنت میں پہنچا دے لیکن اس سے شرک مستثنیٰ ہے۔ اس کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا اور مشرک ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا۔ (النساء:116/4) واضح رہے کہ کبیرہ گناہوں میں قتل ناحق بھی بہت گھناؤنا جرم ہے۔ قرآن کریم کی رُو سے اس جرم کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ (النساء:93/4) اسی طرح حقوق العباد کا معاملہ بہت سنگین ہے متعدد احادیث کے مطابق حقوق العباد کو جب تک بندے معاف نہیں کریں گے۔ معافی نہیں ہوگی، تاہم اہل سنت کے عقیدے کے مطابق ان دونوں جرموں کی مرتکبین کے لیے جہنم کی سزا دائمی نہیں ہوگی۔ سزا بھگتنے کے بعد بالآخر یہ بھی جنت میں جانے کے مستحق قرارپائیں گے۔
5۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جرم کی سزادے اسی طرح اللہ تعالیٰ پر کسی نیکی کی جزا دینا بھی ضروری نہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو کوئی شخص اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ نیکی کابدلہ دے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا گناہ معاف کرنے یا سزا دینے اورنیکی کا بدلہ دینے کا ضابطہ ایک نہیں ہے۔ گناہوں کےبارے میں اس کا قانون یہ ہے کہ اس کی سزا دے لیکن اپنے فضل واحسان سے معاف کردے گا جبکہ نیکی کےبارے میں اس کا قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ اگرموانع نہ ہوں توضرورقبول فرماتا ہے اور اس کا بدلہ عطا فرماتا ہے۔ یہ اس ذات عالی نے اپنی رحمت سے خوداپنے اوپرلازم کیا ہے کسی انسان نے فرض قرار نہیں دیا جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ﴾ ’’اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کردے۔‘‘(البقرة: 143/2) نیز فرمایا: ﴿فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ ’’بے شک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘ (التوبة: 120/9) واللہ أعلم۔