مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
18.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ کا بیان ہے، اور یہ بدری صحابی اور عقبہ والی رات کے نقباء میں سے ایک نقیب ہیں، رسول اللہ ﷺ نے، جب کہ آپ کے اردگرد صحابہ کی ایک جماعت تھی، فرمایا: ’’تم سب مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے۔ اپنے ہاتھ اور پاؤں کے سامنے (دیدہ دانستہ) کسی پر افترا پردازی نہیں کرو گے اور اچھے کاموں میں نافرمانی نہ کرو گے۔ پھر جو کوئی تم میں سے یہ عہد پورا کرے گا، اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان گناہوں میں سے کچھ کر بیٹھے اور اسے دنیا میں اس کی سزا مل جائے تو اس کا گناہ اتر جائے گا۔ اور جو کوئی ان جرائم میں سے کسی کا ارتکاب کرے، پھر اللہ نے دنیا میں اس کی پردہ پوشی فرمائی تو وہ اللہ کے حوالے ہے کہ چاہے تو (قیامت کے دن) اسے سزا دے یا معاف کر دے۔‘‘ ہم نے ان سب شرطوں پر رسول اللہ ﷺ سے بیعت کر لی۔
تشریح:
1۔ یہ بیعت، بیعت اسلام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے دین اسلام پر کاربند رہنے، ہجرت کرنے، میدان جہاد میں ثابت قدم رہنے، فواحش ومنکرات کو چھوڑنے، سنت پر عمل کرنے اور بدعات ورسوم سے دور رہنے کی بیعت لیتے تھے۔ انصار سے اسی قسم کی بیعت لی گئی اور وہ اس پر کاربند رہنے کی بنا پر انصار کہلانے کے حقدار ٹھہرے۔ اس کے علاوہ بیعت تصوف کا اسلام میں کوئی وجود نہیں، یہ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔’’حدود گناہوں کا کفارہ ہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ حد شرعی قائم ہونے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6784) قرآن کریم کی بعض آیات میں اس بات کی صراحت ہے کہ حدود میں گناہ کی گندگی کو صاف کردینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔(النساء:92/4) اس کے برعکس مستدرک حاکم وغیرہ کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حدود کا کفارہ بننا معلوم نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وما أدري الحدود كفارات لأهلها أم لا؟" ’’مجھے معلوم نہیں کہ حدود گناہوں کاکفارہ بنتی ہیں یا نہیں؟‘‘(المستدرك للحاكم: 36/1۔ والصحیحة للألباني، حدیث: 2217) علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں یوں تطبیق دی ہے کہ ممکن ہے آپ نے یہ بات اس وقت کہی ہو جب آپ کو علم نہ ہو اور بعد میں علم ہوگیا ہو کہ حدود کفارہ بن جاتی ہیں تو پھرآپ نے اس کی وضاحت کردی ہوجیسا کہ حدیث باب سے ظاہر ہوتاہے۔ دیکھیے (الصحیحة للألباني: 252/5) پھر مذکورہ حدیث میں اس شخص سے تقابل کیا گیا ہے جس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، خواہ معاف کردے، خواہ سزادے۔ اس تقابل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو سزا دی گئی وہ بری ہوگیا۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مرجیہ اور خوارج کی تردید کرنا مقصود ہے۔ اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اعمال مطلوب ہیں اور ایمان کی کمی بیشی پر اثر انداز ہوتے ہیں، نیز اعمال کی جزئیت اس درجے کی بھی نہیں، جس کا دعویٰ معتزلہ اور خوارج نے کیا کہ گناہ کرنے سے مومن ایمان سے خارج ہوجاتا ہے جبکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خارج نہیں ہوتا بلکہ گناہ کے باوجود بھی مغفرت کا معاملہ اللہ کی مشیت کے تحت رہتا ہے۔ اگر اس کی رحمت دستگیری فرمائے تو مغفرت بھی ہوسکتی ہے واضح رہے کہ مرجیہ کے مقابلے میں معتزلہ اور خوارج کی تردید کم ہے کیونکہ ان کا موقف دنیاوی لحاظ سے چنداں نقصان دہ نہیں۔ ان کے ہاں اعمال کے متعلق بہت شدت پائی جاتی ہے۔ وہ اعمال کو اس لیے ترک نہیں کرتے کہ مبادا اسلام سے خارج ہوجائیں۔ 4۔ گناہ کبیرہ کا مرتکب اگرتوبہ کیے بغیر مرجائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے چاہے تو ایمان کی برکت سے سزا دئیے بغیر اسے جنت میں داخل کردے یا سزا دے کر جنت میں پہنچا دے لیکن اس سے شرک مستثنیٰ ہے۔ اس کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا اور مشرک ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا۔ (النساء:116/4) واضح رہے کہ کبیرہ گناہوں میں قتل ناحق بھی بہت گھناؤنا جرم ہے۔ قرآن کریم کی رُو سے اس جرم کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ (النساء:93/4) اسی طرح حقوق العباد کا معاملہ بہت سنگین ہے متعدد احادیث کے مطابق حقوق العباد کو جب تک بندے معاف نہیں کریں گے۔ معافی نہیں ہوگی، تاہم اہل سنت کے عقیدے کے مطابق ان دونوں جرموں کی مرتکبین کے لیے جہنم کی سزا دائمی نہیں ہوگی۔ سزا بھگتنے کے بعد بالآخر یہ بھی جنت میں جانے کے مستحق قرارپائیں گے۔ 5۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جرم کی سزادے اسی طرح اللہ تعالیٰ پر کسی نیکی کی جزا دینا بھی ضروری نہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو کوئی شخص اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ نیکی کابدلہ دے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا گناہ معاف کرنے یا سزا دینے اورنیکی کا بدلہ دینے کا ضابطہ ایک نہیں ہے۔ گناہوں کےبارے میں اس کا قانون یہ ہے کہ اس کی سزا دے لیکن اپنے فضل واحسان سے معاف کردے گا جبکہ نیکی کےبارے میں اس کا قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ اگرموانع نہ ہوں توضرورقبول فرماتا ہے اور اس کا بدلہ عطا فرماتا ہے۔ یہ اس ذات عالی نے اپنی رحمت سے خوداپنے اوپرلازم کیا ہے کسی انسان نے فرض قرار نہیں دیا جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ﴾ ’’اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کردے۔‘‘(البقرة: 143/2) نیز فرمایا: ﴿فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ ’’بے شک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘ (التوبة: 120/9)واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
18
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
18
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
18
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
18
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ کا بیان ہے، اور یہ بدری صحابی اور عقبہ والی رات کے نقباء میں سے ایک نقیب ہیں، رسول اللہ ﷺ نے، جب کہ آپ کے اردگرد صحابہ کی ایک جماعت تھی، فرمایا: ’’تم سب مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے۔ اپنے ہاتھ اور پاؤں کے سامنے (دیدہ دانستہ) کسی پر افترا پردازی نہیں کرو گے اور اچھے کاموں میں نافرمانی نہ کرو گے۔ پھر جو کوئی تم میں سے یہ عہد پورا کرے گا، اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان گناہوں میں سے کچھ کر بیٹھے اور اسے دنیا میں اس کی سزا مل جائے تو اس کا گناہ اتر جائے گا۔ اور جو کوئی ان جرائم میں سے کسی کا ارتکاب کرے، پھر اللہ نے دنیا میں اس کی پردہ پوشی فرمائی تو وہ اللہ کے حوالے ہے کہ چاہے تو (قیامت کے دن) اسے سزا دے یا معاف کر دے۔‘‘ ہم نے ان سب شرطوں پر رسول اللہ ﷺ سے بیعت کر لی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ بیعت، بیعت اسلام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے دین اسلام پر کاربند رہنے، ہجرت کرنے، میدان جہاد میں ثابت قدم رہنے، فواحش ومنکرات کو چھوڑنے، سنت پر عمل کرنے اور بدعات ورسوم سے دور رہنے کی بیعت لیتے تھے۔ انصار سے اسی قسم کی بیعت لی گئی اور وہ اس پر کاربند رہنے کی بنا پر انصار کہلانے کے حقدار ٹھہرے۔ اس کے علاوہ بیعت تصوف کا اسلام میں کوئی وجود نہیں، یہ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔’’حدود گناہوں کا کفارہ ہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ حد شرعی قائم ہونے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6784) قرآن کریم کی بعض آیات میں اس بات کی صراحت ہے کہ حدود میں گناہ کی گندگی کو صاف کردینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔(النساء:92/4) اس کے برعکس مستدرک حاکم وغیرہ کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حدود کا کفارہ بننا معلوم نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وما أدري الحدود كفارات لأهلها أم لا؟" ’’مجھے معلوم نہیں کہ حدود گناہوں کاکفارہ بنتی ہیں یا نہیں؟‘‘(المستدرك للحاكم: 36/1۔ والصحیحة للألباني، حدیث: 2217) علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں یوں تطبیق دی ہے کہ ممکن ہے آپ نے یہ بات اس وقت کہی ہو جب آپ کو علم نہ ہو اور بعد میں علم ہوگیا ہو کہ حدود کفارہ بن جاتی ہیں تو پھرآپ نے اس کی وضاحت کردی ہوجیسا کہ حدیث باب سے ظاہر ہوتاہے۔ دیکھیے (الصحیحة للألباني: 252/5) پھر مذکورہ حدیث میں اس شخص سے تقابل کیا گیا ہے جس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، خواہ معاف کردے، خواہ سزادے۔ اس تقابل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو سزا دی گئی وہ بری ہوگیا۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مرجیہ اور خوارج کی تردید کرنا مقصود ہے۔ اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اعمال مطلوب ہیں اور ایمان کی کمی بیشی پر اثر انداز ہوتے ہیں، نیز اعمال کی جزئیت اس درجے کی بھی نہیں، جس کا دعویٰ معتزلہ اور خوارج نے کیا کہ گناہ کرنے سے مومن ایمان سے خارج ہوجاتا ہے جبکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خارج نہیں ہوتا بلکہ گناہ کے باوجود بھی مغفرت کا معاملہ اللہ کی مشیت کے تحت رہتا ہے۔ اگر اس کی رحمت دستگیری فرمائے تو مغفرت بھی ہوسکتی ہے واضح رہے کہ مرجیہ کے مقابلے میں معتزلہ اور خوارج کی تردید کم ہے کیونکہ ان کا موقف دنیاوی لحاظ سے چنداں نقصان دہ نہیں۔ ان کے ہاں اعمال کے متعلق بہت شدت پائی جاتی ہے۔ وہ اعمال کو اس لیے ترک نہیں کرتے کہ مبادا اسلام سے خارج ہوجائیں۔ 4۔ گناہ کبیرہ کا مرتکب اگرتوبہ کیے بغیر مرجائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے چاہے تو ایمان کی برکت سے سزا دئیے بغیر اسے جنت میں داخل کردے یا سزا دے کر جنت میں پہنچا دے لیکن اس سے شرک مستثنیٰ ہے۔ اس کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا اور مشرک ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا۔ (النساء:116/4) واضح رہے کہ کبیرہ گناہوں میں قتل ناحق بھی بہت گھناؤنا جرم ہے۔ قرآن کریم کی رُو سے اس جرم کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ (النساء:93/4) اسی طرح حقوق العباد کا معاملہ بہت سنگین ہے متعدد احادیث کے مطابق حقوق العباد کو جب تک بندے معاف نہیں کریں گے۔ معافی نہیں ہوگی، تاہم اہل سنت کے عقیدے کے مطابق ان دونوں جرموں کی مرتکبین کے لیے جہنم کی سزا دائمی نہیں ہوگی۔ سزا بھگتنے کے بعد بالآخر یہ بھی جنت میں جانے کے مستحق قرارپائیں گے۔ 5۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جرم کی سزادے اسی طرح اللہ تعالیٰ پر کسی نیکی کی جزا دینا بھی ضروری نہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو کوئی شخص اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ نیکی کابدلہ دے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا گناہ معاف کرنے یا سزا دینے اورنیکی کا بدلہ دینے کا ضابطہ ایک نہیں ہے۔ گناہوں کےبارے میں اس کا قانون یہ ہے کہ اس کی سزا دے لیکن اپنے فضل واحسان سے معاف کردے گا جبکہ نیکی کےبارے میں اس کا قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ اگرموانع نہ ہوں توضرورقبول فرماتا ہے اور اس کا بدلہ عطا فرماتا ہے۔ یہ اس ذات عالی نے اپنی رحمت سے خوداپنے اوپرلازم کیا ہے کسی انسان نے فرض قرار نہیں دیا جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ﴾ ’’اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کردے۔‘‘(البقرة: 143/2) نیز فرمایا: ﴿فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ ’’بے شک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘ (التوبة: 120/9)واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اس حدیث کو ابوالیمان نے بیان کیا، ان کو شعیب نے خبر دی، وہ زہری سے نقل کرتے ہیں، انھیں ابوادریس عائذ اللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عبادہ بن صامت ؓ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃ العقبہ کے ( بارہ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا: ’’مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں (خدا کی) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں (اسلامی قانون کے تحت) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے (گناہوں کے) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے (گناہ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا (معاملہ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دے دے۔‘‘ (عبادہ کہتے ہیں کہ) پھر ہم سب نے ان (سب باتوں) پر آپ ﷺ سے بیعت کر لی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے راوی عبادہ بن صامت ؓخزرجی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے مکہ آکر مقام عقبہ میں آنحضرت ﷺ سے بیعت کی اور اہل مدینہ کی تعلیم وتربیت کے لیے آپ ﷺ نے جن بارہ آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیاتھا، یہ ان میں سے ایک ہیں جنگ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں۔ 34ہجری میں 72سال کی عمر پاکر انتقال کیا اور رملہ میں دفن ہوئے۔ صحیح بخاری میں ان سے نو احادیث مروی ہیں۔ انصار کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مدینہ کے لوگوں نے جب اسلام کی اعانت کے لیے مکہ آکر رسول اللہﷺ سے بیعت کی تواسی بنا پر ان کا نام انصار ہوا۔ انصار ناصر کی جمع ہے اور ناصر مددگار کوکہتے ہیں۔ انصار عہدجاہلیت میں بنوقیلہ کے نام سے موسوم تھے۔ قیلہ اس ماں کو کہتے ہیں جو دوقبائل کی جامعہ ہو۔ جن سے اوس اور خزرج ہردوقبائل مراد ہیں۔ ان ہی کے مجموعہ کو انصار کہاگیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کے تحت جب ایک مجرم کو اس کے جرم کی سزا مل جائے تو آخرت میں اس کے لیے یہ سزا کفارہ بن جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ ہرگناہ کی سزادے۔ اسی طرح اللہ پر کسی نیکی کا ثواب دینا بھی ضروری نہیں۔ اگروہ گنہگار کو سزا دے تو یہ اس کا عین انصاف ہے اور گناہ معاف کردے تو یہ اس کی عین رحمت ہے۔ نیکی پر اگر ثواب نہ دے تو یہ اس کی شان بے نیازی ہے اور ثواب عطا فرمادے تو یہ اس کا عین کرم ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ گناہ کبیرہ کامرتکب بغیرتوبہ کئے مرجائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، چاہے تواس کے ایمان کی برکت سے بغیر سزادئیے جنت میں داخل کرے اور چاہے سزا دے کر پھر جنت میں داخل کرے۔ مگر شرک اس سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کے بارے میں قانون الٰہی یہ ہے:﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ﴾ ...الآیة جو شخص شرک پر انتقال کرجائے تو اللہ پاک اسے ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ کسی مومن کا خون ناحق بھی نص قرآن سے یہی حکم رکھتا ہے۔ اور حقوق العباد کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ جب تک وہ بندے ہی نہ معاف کردیں، معافی نہیں ملے گی۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی عام آدمی کے بارے میں قطعی جنتی یاقطعی دوزخی کہنا جائز نہیں۔ پانچویں بات معلوم ہوئی کہ اگرایمان دل میں ہے تومحض گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوتا۔ مگرایمان قلبی کے لیے زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے ثبوت ایمان دینا بھی ضروری ہے۔ اس حدیث میں ایمان، اخلاق، حقوق العباد کے وہ بیشتر مسائل آگئے ہیں۔ جن کو دین وایمان کی بنیاد کہاجا سکتا ہے۔ اس سے صاف واضح ہوگیا کہ نیکی وبدی یقیناً ایمان کی کمی وبیشی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور جملہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں۔ ان احادیث کی روایت سے حضرت امیرالمحدثین کا یہی مقصد ہے۔ پس جو لوگ ایمان میں کمی وبیشی کے قائل نہیں وہ یقیناً خطا پر ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر یاہمیشہ کے لیے دوزخی بتلاتے ہیں۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ہماری روایت کے مطابق یہاں لفظ باب بغیرترجمہ کے ہے اور یہ ترجمہ سابق ہی سے متعلق ہے: "و وجه التعلق أنه لما ذکر الأنصار فى الحدیث الأول أشار في هذا إلی ابتداء السبب في تلقیهم بالأنصار لأن أول ذلك کان لیلة العقبة لما توافقوا مع النبیﷺ عند عقبة مني في الموسم کما سیأتی شرح ذلك إن شاءالله تعالیٰ في السیرة النبویة من هذا الکتاب." ’’یعنی اس تعلق کی وجہ یہ ہے کہ حدیث اول میں انصار کا ذکر کیاگیا تھا یہاں یہ بتلایاگیا کہ یہ لقب ان کو کیونکر ملا۔ اس کی ابتداءاس وقت سے ہوئی جب کہ ان لوگوں نے عقبہ میں منیٰ کے قریب آنحضرت ﷺ کی موافقت وامداد کے لیے پورے طور پر وعدہ کیا۔‘‘ لفظ ’’عصابہ‘‘ کا اطلاق زیادہ سے زیادہ چالیس پر ہو سکتا ہے۔ یہ بیعت اسلام تھی جس میں آپ نے شرک باللہ سے توبہ کرنے کا عہدلیا۔ پھر دیگر اخلاقی برائیوں سے بچنے کا اور اولاد کوقتل نہ کرنے کا وعدہ لیا۔ جب کہ عرب میں یہ برائیاں عام تھیں۔ بہتان سے بچنے کا بھی وعدہ لیا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جس کی کوئی اصلیت نہ ہو۔ الفاظ ﴿بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ﴾ میں دل سے کنایہ ہے۔ یعنی دل نے ایک بے حقیقت بات گھڑلی۔ آگے آپ ﷺ نے اصولی بات پر عہد لیاکہ ہرنیک کام میں ہمیشہ اطاعت کرنی ہوگی۔ معروف ہروہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں جانی ہوئی ہو۔ اس کی ضد منکرہے۔ جوشریعت میں نگاہ نفرت سے دیکھی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubadah bin As-Samit (RA): who took part in the battle of Badr and was a Naqib (a person heading a group of six persons), on the night of Al-'Aqabah pledge: Allah's Apostle (ﷺ) said while a group of his companions were around him, "Swear allegiance to me for: 1. Not to join anything in worship along with Allah. 2. Not to steal. 3. Not to commit illegal sexual intercourse. 4. Not to kill your children. 5. Not to accuse an innocent person (to spread such an accusation among people). 6. Not to be disobedient (when ordered) to do good deed". The Prophet (ﷺ) added: "Whoever among you fulfills his pledge will be rewarded by Allah. And whoever indulges in any one of them (except the ascription of partners to Allah) and gets the punishment in this world, that punishment will be an expiation for that sin. And if one indulges in any of them, and Allah conceals his sin, it is up to Him to forgive or punish him (in the Hereafter)". 'Ubadah bin As-Samit (RA) added: "So we swore allegiance for these." (points to Allah's Apostle) (ﷺ).