تشریح:
(1) اس حدیث کے پس منظر کو امام بخاری ؒ نے اپنی شرط کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن رافع نے جناب حجاج بن عمرو انصاری سے سوال کیا کہ اگر کوئی بحالت احرام بیت اللہ سے روک دیا جائے تو وہ کیا کرے؟ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنایا کہ جو لنگڑا ہو جائے یا اس کی ہڈی ٹوٹ جائے یا روک دیا جائے تو وہ احرام کھول دے اور آئندہ سال اسے ادا کرے۔ حضرت عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کے سامنے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ پھر میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ واقعہ سنایا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو روک دیا گیا تو آپ نے اپنا سر منڈوایا، قربانی ذبح کی اور اپنی بیویوں سے ہم بستر ہوئے، پھر آئندہ سال (نیا) عمرہ کیا۔ (فتح الباري:11/4) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص کسی رکاوٹ کی وجہ سے احرام کھول دے اسے آئندہ سال اس کی قضا دینی ضروری ہے، جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک ایسا کرنا ضروری نہیں۔ اس کے متعلق ہم آئندہ بحث کریں گے۔