تشریح:
1۔ ابن بطال نے عنوان سے حدیث بالا کی مطابقت بایں الفاظ ظاہر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوکراٹھے اور وضو سے پہلے ہی سورہ آل عمران کی دس آیات تلاوت فرمائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے بعد وضو کیے بغیرقرآنی آیات تلاوت کرنا صحیح ہے۔ (شرح ابن بطال: 279/1)
لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نیند ناقض وضو نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں، لیکن میرا دل بیداررہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس حدیث کا صرف یہ مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر غفلت طاری نہیں ہوتی اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس دوران میں ریاح وغیرہ کا بھی اخراج نہ ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم لوگوں پر نیند کے ساتھ غفلت بھی طاری ہوجاتی ہے۔ اس لیے خروج ریح کا پتہ نہیں چلتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دوران نیند غفلت طاری نہیں ہوتی، اس لیے ممکن ہے کہ آپ کو بحالت نیند حدث لاحق ہوا ہو، جسے آپ جانتے تھے، اس کے باوجود آپ نے وضو کے بغیر تلاوت فرمائی اور بعد میں وضو کیا، اس لیے بے وضو قراءت درست ہے اور ابن بطال کا موقف صحیح ہے۔ (فتح الباري: 377/1)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس توجیہ پر علامہ عینی نے اعتراض کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہےکہ حالت نوم میں آپ کو حدث لاحق نہیں ہوتا۔ پیغمبر اور غیر پیغمبرمیں یہی فرق ہے۔ ان کے نزدیک یہ کوئی فرق نہیں کہ انھیں احساس ہوجاتا ہے، جبکہ ہمیں دوران نیند کسی چیز کا غفلت کی وجہ سے احساس نہیں ہوتا۔ (عمدة القاري: 524/2)
قارئین کرام خود فیصلہ کریں کہ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کے اعتراض میں کسی قدر وزن ہے۔ جبکہ وہ خود مطابقت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کی بنیاد مذکورہ حدیث کے ظاہر پر رکھی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو کراٹھنے کے بعد وضو فرمایا، یعنی اس حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ناقض وضو پیش آیا ہوگا اورقرآنی آیات تلاوت کرنے کے بعد آپ نے وضو کیا۔ یہ ممکن ہے کہ نقض وضو بعد از تلاوت پیش آیا ہو، یا آپ نے حدث کے بغیر ہی وضو کی تجدید کی ہو۔ (عمدة القاري: 521/2)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور توجیہ بیان کی ہے کہ عنوان سے حدیث کی مطابقت حضرت ابن عباسؓ کے فعل سے ہے کہ آپ نے کہا: ’’میں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباسؓ کو وضو کے بغیر آیات کی تلاوت کرتے سنا اور آپ نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ اگر یہ تلاوت درست نہ ہوتی توآپ ضرور تنبیہ فرمادیتے۔ (فتح الباري:377/1)
بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ اس وقت نابالغ تھے، لہٰذا ان کا فعل حجت نہیں۔ یہ اعتراض بھی بے بنیاد ہے کیونکہ حضرت ابن عباسؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑے ہوئے تو آپ نے دوران نماز ہی میں فوراً اصلاح فرمائی۔ اگرتلاوت درست نہ ہوتی تو اس کی بھی اصلاح کردینی چاہیے تھی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوم طویل کے بعد اٹھے تھے اور عام طور پر اتنے طویل وقت میں کسی حدث کا پیش آنا بعید از امکان نہیں، اس لیے مذکورہ حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال صحیح ہے۔
2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عنوان میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدث کو مطلق بیان کیا تھا۔ اس حدث سے اسے مقید کیاجاسکتا ہے کہ اس سے مراد حدث اصغر ہے کیونکہ اگرحدث اکبر(جماع وغیرہ) لاحق ہوتا تو غسل کی ضرورت تھی جس کا مذکورہ حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ (فتح الباري:377/1)
3۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور توجیہ بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت میمونہؓ کے ساتھ لیٹے تھے، اس لیے ملامست کی وجہ سے نقض وضو ہوا تھا، لیکن یہ توجیہ اس لیے درست نہیں کہ خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسے ناقض وضو شمار نہیں کرتے، پھر وہ اس پر اپنے عنوان کی بنیاد کیونکر رکھ سکتے ہیں؟ البتہ ملاعبت کی صورت میں اکثر مذی کا خروج ہوجاتا ہے اور مذی ناقض وضو ہے، لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے تعرض نہیں فرمایا اور جوبات ذکر کی ہے اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اتفاق نہیں۔ واللہ أعلم وعلمه أتم۔