تشریح:
(1) یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے۔ کسی روایت میں ہے کہ سوال کرنے والا مرد تھا، اس نے اپنے باپ کے متعلق سوال کیا۔ کسی میں ہے کہ عورت نے سوال کیا۔ کسی روایت میں اپنی ماں کے متعلق سوال کرنا مروی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں سائل آدمی تھا اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی۔ اس نے بھی سوال کیا اور جس کے متعلق سوال کیا گیا وہ باپ اور ماں دونوں تھے۔ اس کی تائید ایک روایت سے ہوتی ہے جس میں حضرت فضل بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دیہاتی آیا تو اس کے پیچھے اس کی خوبرو بیٹی سوار تھی۔ میں اس کی طرف دیکھنے لگا ۔۔ (مسندأحمد:211/1) اس روایت کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ پہلے لڑکی نے اپنے دادا کے متعلق سوال کیا ہو اور اسے لفظ "أبي" سے تعبیر کیا ہو کیونکہ دادا کے لیے باپ کا لفظ بولا جا سکتا ہے۔ پھر اس کے باپ نے خود اپنے والد کے متعلق سوال کیا ہو۔ ممکن ہے کہ اپنی ماں کے متعلق بھی اس نے سوال کیا ہو۔ (فتح الباري:89/4) شیخ البانی ؒ نے ان روایات کو شاذ قرار دیا ہے جن میں یہ ہے کہ سوال کرنے والا مرد تھا۔ (2) واضح رہے کہ عورت، مرد کی طرف سے حج کر سکتی ہے لیکن چند ایک وجوہ سے عورت کا حج منفرد ہوتا ہے: ٭ عورت سلا ہوا کپڑا پہن سکتی ہے۔ ٭ موزے پہن سکتی ہے۔ ٭ اپنا سر چھپا سکتی ہے۔ ٭ تلبیہ کے لیے اونچی آواز نہیں کر سکتی۔ ٭ طواف میں رمل نہیں کر سکتی۔ ٭ اضطباع بھی نہیں کر سکتی۔ ٭ طواف صدر کے ترک پر اس پر دم لازم نہیں۔ ٭ حیض کی وجہ سے طواف زیارت مؤخر کر سکتی ہے اور اس صورت میں اس پر کوئی دم لازم نہیں آتا۔ واللہ أعلم