تشریح:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد عورتوں کے حج کی مشروعیت بیان کرنا نہیں کیونکہ اس کے متعلق کوئی شک نہیں کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح حج کی مکلف ہیں، بلکہ امام بخاری یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عورتوں کے حج کے لیے آداب و شرائط مردوں جیسے ہیں یا ان کے لیے کوئی زائد امر بھی مطلوب ہے، چنانچہ عورت پر وجوب حج کے لیے محرم کا ہونا شرط ہے جیسا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: میری بیوی حج کرنا چاہتی ہے لیکن میرا نام فلاں، فلاں غزوے کے لیے لکھ دیا گیا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’جاؤ، اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3272(1341)) (2) اس سلسلے میں امام بخاری نے پانچ احادیث پیش کی ہیں جن کی ترتیب وار مختصر تشریح حسب ذیل ہے: ٭ پہلی حدیث حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں امہات المؤمنین کے حج کرنے سے متعلق ہے۔ دراصل حضرت عمر ؓ امہات المومنین ؓ کے بارے میں متردد تھے کہ انہیں حج پر جانے کی اجازت دی جائے یا نہ دی جائے کیونکہ ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ) (الأحزاب33:33) ’’تم اپنے گھروں میں ٹکی رہو۔"‘‘ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات سے فرمایا: ’’حج یہی ہے۔ اس کے بعد تم نے گھروں میں بیٹھ رہنا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1722) چنانچہ آپ نے اپنے دور خلافت کے آخر میں امہات المومنین کو حج کی اجازت دی اور خود بھی ساتھ روانہ ہوئے۔ ان کی خدمت کے لیے حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کو مامور فرمایا۔ اونٹوں کے قافلے کے آگے حضرت عثمان اور پیچھے حضرت عبدالرحمٰن ؓ تھے۔ حضرت عثمان ؓ وقفے وقفے سے یہ اعلان کرتے تھے: خبردار! یہ امہات المومنین کا قافلہ ہے۔ کوئی آدمی ان کے نزدیک نہ آئے اور نہ ان کی طرف دیکھنے کی جراءت ہی کرے۔ حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں بھی انہوں نے حج کا فریضہ سرانجام دیا۔ ٭ دوسری حدیث میں بھی عورتوں کو حج کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان کے حق میں اسے افضل الجہاد قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عورتیں جہاد میں شریک ہوتی تھیں جیسا کہ حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ جہاد میں جاتیں اور زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ ٭ تیسری حدیث میں وہ شرط بیان کی گئی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے کہ محرم کے بغیر عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں بلکہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ عورت محرم کے بغیر حج نہ کرے جیسا کہ دارقطنی نے اسے بیان کیا ہے (سنن الدارقطني، الحج:222/2) اور ابو عوانہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ امام احمد ؒ نے اس حدیث کے عموم کے پیش نظر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ محرم کے بغیر عورت پر حج فرض نہیں۔ چونکہ ازواج مطہرات کے تمام اہل ایمان روحانی بیٹے ہیں، اس لیے ان کا حج اپنے روحانی محارم کے ساتھ ہی تھا۔ یہ واقعہ ان حضرات کی دلیل نہیں بن سکتا جو محرم کے بغیر عورتوں کے حج کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ٭ چوتھی حدیث کا مدلول یہ ہے کہ جب کوئی عورت فریضۂ حج ادا کرنے کا ارادہ کرے تو اس کا شوہر اس کے ساتھ حج کرے۔ یہ جہاد سے بہتر ہے۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت ہے جب جہاد فرض نہ ہو۔ ٭ پانچویں حدیث کے مطابق عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو دن کا سفر بھی محرم کے بغیر طے کرے۔ اس سے زیادہ مدت سفر بطریق اولیٰ جائز نہیں، یعنی عورت کوئی بھی سفر محرم یا شوہر کے بغیر نہیں کر سکتی، خواہ سفر حج ہو یا اس کے علاوہ۔ الغرض عورت کے لیے حج کرنے سے متعلق ایک زائد شرط ہے کہ اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے۔ جو عورتیں کسی اجنبی کو محرم بنا کر حج پر جاتی ہیں، وہ دو چند گناہ کا ارتکاب کرتی ہیں: ایک تو حدیث کی مخالفت، دوسرے جھوٹ کی لعنت، اس لیے ایسا کرنا ثواب کے بجائے گناہ کمانا ہے۔