تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث مذکور میں فضل وضو سے مراد وہ پانی ہے جو رسول ﷺ کے وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ گیا تھا جسے لوگوں نے تقسیم کر لیا اور چہروں پر ملنا شروع کردیا۔ اگر چہ یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ پانی ہو جو وضو کرتے وقت اعضائے شریفہ سے گررہا تھا جسے فقہاء کی اصطلاح میں ماءِ مستعمل کہتے ہیں۔ یہ حدیث مستعمل پانی کے پاک ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (فتح الباري:386/1) لیکن ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ پانی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اعضائے شریفہ پر لگنے کے بعد گر رہا تھا، اس میں انوار و برکات زیادہ ہیں۔ اس متبرک پانی کو حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی شروع ہوئی تھی۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ وضو کے بعد جو پانی برتن میں بچ رہے یا وہ پانی جو وضو کرنے والے کے اعضاء سے ٹپکے اس قسم کے پانی کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ پانی نجس نہیں، کیونکہ نجاست آلود چیز بابرکت نہیں ہو سکتی۔
2۔ جو لوگ ماءِ مستعمل کو ’’ماءِ ذَنوب‘‘ قراردے کر نجس کہتے ہیں اور اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے، ان کے متعلق ابن بطال نے محدث ابن القصار کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس پانی سے گناہوں کا دھل جانا اپنی جگہ پر مسلّم حقیقت ہے، لیکن وہ گناہ نمک کی طرح پانی میں تحلیل نہیں ہوئے کہ اسے نجس قراردے دیا جائے، اس طرح یہ گناہ پانی کے حکم پر شرعاً اثر انداز نہیں ہوتے۔ رسول اللہ ﷺ نے بطور مثال ہمیں سمجھایا ہے کہ جس طرح کپڑا دھونے سے اس کی میل کچیل دور ہو جاتی ہے اسی طرح وضو کرنے سے انسان کا بدن گناہوں کی میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ وضو کا پانی پہلے پہلے اعضائے وضو کے جن اجزاء پر پڑے گا اگر وہ گناہوں کی آمیزش سے نجس ہو جاتے تو اعضائے وضو کے بقیہ اجزاء کو کیونکر پاک کر سکتا ہے، اگر ایسی بات ہو تو وضو کرنے والے کو اعضائے وضو کے ہر حصے کو دھونے کے لیے نیا پانی لینا پڑے گا، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ (شرح ابن بطال:290/1)
3۔ یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے مضافاتِ مکہ میں نماز پڑھتے وقت سترے کا اہتمام کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام یا حرم مکہ میں بھی امام اور منفرد کو نماز کے لیے اپنے آگے سترہ رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر مکہ اور غیر مکہ میں سترے کے ضروری ہونے کے لیے ایک عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:501)
4۔ وضو کرتے وقت اعضائے وضو سے ٹپکنے والا پانی اس معنی میں تو مستعمل ہو سکتا ہے کہ یہ پینے کے قابل نہیں رہتا کہ آپ لوگوں کو پیش کریں، لیکن اگر کسی کپڑے پر گر جائے تو اس سے کپڑا نجس نہیں ہو گا۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس سے اجتناب کرنے کی تلقین ضرور فرماتے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کے چھینٹوں سے احتراز کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اعضائے شریفہ سے لگ کر گرنے والا پانی انتہائی بابرکت ہے۔ جبکہ عام انسان کے اعضاء سے گرنے والا پانی اس قسم کی خیرو برکت سے خالی ہوتا ہے۔