تشریح:
(1) یہ روایت کئی ایک الفاظ سے مروی ہے، مثلا: لا بيتها، حرتيها، جبليها، مأزقيها۔ ان مختلف الفاظ کے پیش نظر احناف نے اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے اور مدینہ کے حرم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، حالانکہ ان الفاظ میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ مدینہ طیبہ کے پہاڑ عموما سیاہ ہیں، اس لیے حرۃ کے معنی بھی سیاہ پتھر ہیں۔ لابة اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سیاہ پتھر پڑے ہوئے ہوں۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا اور اس کے لیے دعا فرمائی، میں نے مدینہ طیبہ کو اسی طرح حرم قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کو حرم کہا تھا۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2129) (2) اس میں شکار کرنے پر کوئی تاوان اور فدیہ نہیں، البتہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا: ’’جسے تم مدینہ طیبہ میں شکار کرتے دیکھو تو تمہارے لیے اس سے چھینا ہوا مال حلال ہے۔‘‘ (مسندأحمد:170/1) احناف کہتے ہیں کہ مدینے کا حرم فی الحقیقت حرم نہیں اور نہ وہاں شکار کرنا ہی حرام ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ حرم مدینہ میں کسی قسم کا شکار نہ کیا جائے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3317(1362))