تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں تین الفاظ ذکر فرمائے ہیں: ایمان، احتساب اور نیت، اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں اللہ سے اچھا بدلہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا میں ایمان و یقین کے ساتھ نیک عمل کیا جائے، نیز نیت بھی حصول ثواب کی ہو۔ اگر ایمان و یقین کے ساتھ کھانے پینے سے پرہیز کیا لیکن مقصد حصول ثواب نہ تھا بلکہ کسی ڈاکٹر وغیرہ کے کہنے پر پرہیز کیا تو اس کے لیے قیامت کے دن اچھے بدلے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ دراصل اعمال میں نیت کا کردار ہوتا ہے، اگر نیت میں اخلاص ہوا تو اللہ کے ہاں اجروثواب کی امید کی جا سکتی ہے۔ کافر دوزخ میں ہمیشہ اس لیے رہے گا کہ اس کی نیت یہ تھی کہ اگر وہ زندہ رہا تو کفر کرتا رہے گا، اس نیت بد کی وجہ سے اسے ہمیشہ جہنم میں رکھا جائے گا۔ (2) احتساب کے متعلق علامہ خطابی نے لکھا ہے کہ اس سے مراد حصول ثواب کی نیت ہے، یعنی وہ رمضان کا روزہ اس ارادے سے رکھے کہ اسے ثواب حاصل ہو گا۔ اسے بوجھ خیال نہ کرے اور نہ ان کے دنوں کی لمبائی کا خیال ہی ذہن میں لائے بلکہ خوش دلی سے اس فریضے کو ادا کرے۔ (فتح الباري:149/4) (3) واضح رہے کہ اس حدیث میں "ما" ہے جس سے مراد گناہ ہیں وہ جو بھی ہوں، خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ۔ حدیث میں وارد الفاظ کا بھی یہی تقاضا ہے۔ واللہ أعلم