Sahi-Bukhari:
Virtues of Madinah
(Chapter: Al-Madina expels all the evil and bad persons)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1902.
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ اُحد کے لیے مدینہ طیبہ سے نکلے اس دوران آپ کے بعض ساتھی واپس چلے گئے تو کچھ کہنے لگے: ہم انھیں قتل کردیں گے اور اس کے برعکس چند لوگوں نے کہا: ہم انھیں قتل نہیں کریں گے۔ اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’تمہارا کیا حال ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ بن گئے ہو۔‘‘ ان حالات میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مدینہ طیبہ(منافق) آدمیوں کو اس طرح دور کردیتا ہے جس طرح آگ لوہے سے زنگار دور کرتی ہے۔‘‘
تشریح:
(1) مدینہ طیبہ کا وصف مذکور ان لوگوں کے لیے ہے جو اسلام کی خواہش رکھتے ہوئے مسلمان ہوئے، پھر ان کے دل میں خرابی پیدا ہوئی۔ ایسے لوگوں کو مدینہ طیبہ اپنے اندر پناہ نہیں دیتا، بصورت دیگر مدینہ طیبہ میں منافقین رہتے تھے، وہیں مرے اور دفن ہوئے۔ مدینہ طیبہ نے انہیں اپنے سے دور نہیں کیا کیونکہ مدینہ طیبہ ان کی اصل قیام گاہ تھی۔ وہ اسلام کی حیثیت سے وہاں نہیں رہتے تھے نہ انہیں مدینہ طیبہ سے محبت ہی تھی۔ ان کا وہاں رہنا صرف اس لیے تھا کہ وہ ان کا اصلی وطن اور وہی ذریعۂ معاش تھا۔ (عمدةالقاري:598/7) (2) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مدینہ طیبہ کا یہ وصف رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے ساتھ خاص ہو کہ آپ کے دور میں مدینہ طیبہ سے نفرت کرتے ہوئے وہی نکلتا تھا جس کے دل میں ایمان کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا تعلق دجال اکبر کی آمد کے ساتھ مخصوص ہو کیونکہ اس کی آمد پر مدینہ طیبہ سے جھٹکوں کے ذریعے سے تمام ان لوگوں کو نکال دیا جائے گا جو دل کے روحانی مریض ہوں گے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1830
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1884
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1884
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1884
تمہید کتاب
دور جاہلیت میں مدینہ طیبہ کا نام یثرب تھا۔ یہ لفظ تثريب سے مشتق ہے جس کے معنی توبیخ و ملامت کرنا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں آنے والوں کو ملامت کیا کرتے تھے کیونکہ اس کی آب و ہوا اچھی نہ تھی، لیکن یہ نام مدینہ طیبہ کے شایان شان نہ تھا۔ قرآن کریم نے اس نام کی نسبت منافقین کی طرف کی ہے اور اسے بطور حکایت نقل کیا ہے۔ (الاحزاب13:33) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں اپنی تشریف آوری کے بعد اس نام کو پسند نہیں کیا بلکہ اس کا نام طیبہ رکھا۔ (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3356(1384)) مسند ابی داود طیالسی اور معجم الکبیر طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله أمرني أن أسمي المدينة طيبة) "یقینا اللہ ذوالجلال نے مجھے اس کا نام طیبہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔" (صحیح الجامع الصغیر للالبانی،حدیث:1723) ایک روایت میں ہے: "اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کا نام طابہ منتخب کیا ہے۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3357(1385)) طابہ اور طیبہ دونوں کے معنی پاکیزہ اور خوشگوار کے ہیں، چنانچہ مدینہ طیبہ میں قلوب و اذہان کے لیے جو سکون و اطمینان اور خوشگواری ہے وہ اسی شہر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بایں الفاظ دعا کی ہے: "اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے۔ میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ مزید اتنے کی دعا کرتا ہوں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3334(1373)) قرآن کریم میں مکہ کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے بے آب و گیاہ وادی میں اپنے اہل و عیال کو وہاں بسا کر کی تھی۔ وہ اس طرح ہے: "اے اللہ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و الفت ڈال دے اور یہاں ان کی ضرورت کے مطابق پھل مہیا کر، نیز یہاں کے لیے امن و سلامتی مقدر فرما۔" (ابراھیم37:14) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی خیر و برکت کے لیے بایں الفاظ دعا فرمائی: "اے اللہ! مدینہ طیبہ میں مکہ مکرمہ کے اعتبار سے دو چند خیروبرکت عطا فرما۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3326(1369))آپ کی اس دعا کا ثمرہ ہے کہ دنیا بھر میں جن اہل ایمان کو مکہ سے عقیدت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے محبت ہے اور اس محبوبیت میں مدینہ طیبہ کا حصہ مکہ مکرمہ سے یقینا زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے قابل احترام ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے حرم قرار دیے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کا درمیانی رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں کسی قسم کی خونریزی نہ کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں اور چارے کی ضرورت کے علاوہ یہاں درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3336(1374)) اس سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ بھی سرکاری علاقے کی طرح واجب الاحترام ہے اور وہاں ہر وہ اقدام منع ہے جو اس کی عظمت و حرمت کے منافی ہو لیکن اس کے احکام مکہ جیسے نہیں کیونکہ مدینہ طیبہ میں جانوروں کے چارے کے لیے درختوں کے پتے جھاڑے جا سکتے ہیں جبکہ حرم مکہ میں اس کی بھی اجازت نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت و فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے مزید فرمایا: "میرا جو امتی ایمان کے ساتھ مدینہ طیبہ کی سختیوں اور تکلیفوں کو صبر و استقامت سے برداشت کرے گا اور وہاں پڑا رہے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3339(1374)) سفارش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دے اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمائے۔اکثر محدثین کا دستور ہے کہ وہ اپنی تالیفات میں مناسک حج وغیرہ سے فراغت کے بعد "فضائل مدینہ" کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت و حرمت پر مشتمل احادیث بیان کرتے ہیں۔ اسی طریقے کی پیروی کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی مسائل حج و عمرہ کے بعد کتاب فضائل المدینۃ کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت پر مشتمل چھبیس احادیث بیان کی ہیں۔ پھر ان پر بارہ چھوٹے چھوٹے ابواب قائم کیے ہیں جن میں دو بلا عنوان ہیں۔ عنوانات کی فہرست حسب ذیل ہے: ٭ مدینہ کا قابل احترام ہونا۔ ٭ مدینہ طیبہ کی فضیلت، نیز وہ برے آدمی کو نکال دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ طابہ ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کے دو کنارے۔ ٭ جس نے مدینہ طیبہ سے اعراض کیا۔ ٭ ایمان مدینہ طیبہ کی طرف سمٹ آئے گا۔ ٭ اہل مدینہ کے ساتھ مکروفریب کرنے کا گناہ۔ ٭ مدینہ طیبہ کے محلات۔ ٭ مدینہ طیبہ میں دجال داخل نہیں ہو گا۔ ٭ مدینہ طیبہ خباثت کو دور کر دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کو بے آباد کرنے کی کراہت۔ ٭ بلا عنوان۔امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ چھبیس احادیث میں سے چار معلق اور بائیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں نو مکرر اور باقی سترہ خالص ہیں۔ ان میں سے دو احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بیان کیا ہے جس سے اس عنوان کے حسن اختتام کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے۔ آمین۔ اے اللہ! ہمیں حق پہچان کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ اُحد کے لیے مدینہ طیبہ سے نکلے اس دوران آپ کے بعض ساتھی واپس چلے گئے تو کچھ کہنے لگے: ہم انھیں قتل کردیں گے اور اس کے برعکس چند لوگوں نے کہا: ہم انھیں قتل نہیں کریں گے۔ اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’تمہارا کیا حال ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ بن گئے ہو۔‘‘ ان حالات میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مدینہ طیبہ(منافق) آدمیوں کو اس طرح دور کردیتا ہے جس طرح آگ لوہے سے زنگار دور کرتی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مدینہ طیبہ کا وصف مذکور ان لوگوں کے لیے ہے جو اسلام کی خواہش رکھتے ہوئے مسلمان ہوئے، پھر ان کے دل میں خرابی پیدا ہوئی۔ ایسے لوگوں کو مدینہ طیبہ اپنے اندر پناہ نہیں دیتا، بصورت دیگر مدینہ طیبہ میں منافقین رہتے تھے، وہیں مرے اور دفن ہوئے۔ مدینہ طیبہ نے انہیں اپنے سے دور نہیں کیا کیونکہ مدینہ طیبہ ان کی اصل قیام گاہ تھی۔ وہ اسلام کی حیثیت سے وہاں نہیں رہتے تھے نہ انہیں مدینہ طیبہ سے محبت ہی تھی۔ ان کا وہاں رہنا صرف اس لیے تھا کہ وہ ان کا اصلی وطن اور وہی ذریعۂ معاش تھا۔ (عمدةالقاري:598/7) (2) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مدینہ طیبہ کا یہ وصف رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے ساتھ خاص ہو کہ آپ کے دور میں مدینہ طیبہ سے نفرت کرتے ہوئے وہی نکلتا تھا جس کے دل میں ایمان کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا تعلق دجال اکبر کی آمد کے ساتھ مخصوص ہو کیونکہ اس کی آمد پر مدینہ طیبہ سے جھٹکوں کے ذریعے سے تمام ان لوگوں کو نکال دیا جائے گا جو دل کے روحانی مریض ہوں گے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا کہ میں نے زید بن ثابت ؓ سے سنا، آپ فر رہے تھے کہ جب نبی کریم ﷺ جنگ احد کے لیے نکلے تو جو لوگ آپ ﷺ کے ساتھ تھے ان میں سے کچھ لوگ واپس آگئے ( یہ منافقین تھے ) پھر بعض نے تو یہ کہا کہ ہم چل کر انہیں قتل کردیں گے اورایک جماعت نے کہا کہ قتل نہ کرنا چاہئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ﴿فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ﴾ اور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مدینہ (برے ) لوگوں کو اس طرح دور کردیتا ہے جس طرح آگ میل کچیل دور کردیتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Thabit (RA): When the Prophet (ﷺ) went out for (the battle of) Uhud, some of his companions (hypocrites) returned (home). A party of the believers remarked that they would kill those (hypocrites) who had returned, but another party said that they would not kill them. So, this Divine Inspiration was revealed: "Then what is the matter with you that you are divided into two parties concerning the hypocrites." (4.88) The Prophet (ﷺ) said, "Medina expels the bad persons from it, as fire expels the impurities of iron."