تشریح:
مسحِ راس کے متعلق قیاس کیا جاتا ہے کہ جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے انھیں تین، تین بار دھونے کی تصریح احادیث سے ثابت ہے لیکن جن اعضاء پر مسح کیا جاتا ہے ان میں بھی تثلیث برقرار رہنی چاہیے، کیونکہ وضو ایک طہارت حکمیہ ہے، اس میں اعضائے مغسولہ اور اعضائے ممسوحہ میں فرق روا نہیں۔ لیکن امام بخاری ؒ نص کے مقابلے میں قیاس کو نہیں مانتے۔ ان کا موقف ہے کہ مسح میں تکرار نہیں ہے۔ اگرچہ بظاہر مسح کے وقت اقبال وادبارسے تکرار معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ تکرار مسحات نہیں بلکہ تکرار حرکات ہے۔ مسح ایک ہی مرتبہ ہے، اگرچہ اس کی حرکات دو ہیں۔ بعض حضرات نے درج ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے کہ مسح تین مرتبہ ہے۔ ’’رسول اللہ ﷺ نے وضو تین تین بارکیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 230) لیکن اس روایت میں اجمال ہے جس کی وضاحت دوسری روایات سے ہوتی ہے جن میں صراحت ہے کہ مسح راس میں تکرار نہیں۔ اس بنا پرتین بار کے الفاظ کو اکثر ارکان وضو سے متعلق سمجھنا ہوگا یا دھوئے جانے والے اعضاء مراد ہیں۔ امام ابوداؤد ؒ وضو سے متعلقہ روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے وضو سے متعلقہ روایات عثمان جو بالکل صحیح ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک بار ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 108) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جو ثابت ہے وہ ایک ہی بار مسح کرناہے، تاہم تین مرتبہ مسح کرنے والی روایت کو اگر کبھی کبھی پرمحمول کرلیا جائے توان میں کوئی ٹکراؤ نہیں رہتا، کیونکہ سنداً وہ روایت بھی صحیح یا حسن ہے۔ (تمام المنة للألباني رحمة اللہ علیه ص :91)