Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The using of the remaining water after ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جریر بن عبداللہ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کے مسواک کے بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیں۔یعنی مسواک جس پانی میں ڈوبی رہتی تھی، اس پانی سے گھر کے لوگوں کو بخوشی و ضو کرنے کے لیے کہتے تھے۔
192.
حضرت محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے، یہ وہی محمود ہیں جن کے چہرے پر رسول اللہ ﷺ نے انہی کے کنویں کے پانی سے کلی فرمائی تھی جب کہ وہ بچے تھے۔ حضرت عروہ جناب مسور وغیرہ سے بیان کرتے ہیں، ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے: جب نبی اکرم ﷺ وضو فرماتے تو صحابہ کرام ؓ آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو لینے کے لیے آپس میں جھگڑتے تھے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے حضرت محمود بن ربیع ؓ کے ایک واقعے سے استدلال کیا ہے، یہ استدلال اس صورت میں صحیح ہو سکتا ہے جب قائم کردہ عنوان میں وسعت پیدا کی جائے بصورت دیگر یہاں وضوئے تام تو دور کی بات ہے وضوئے ناقص بھی نہیں، گویا امام بخاری ؒ پانی کے استعمال میں تعمیم کر رہے ہیں، کلی بھی پانی کے استعمال کی ایک شکل ہے، لہٰذا ان کے نزدیک پانی کسی بھی طرح استعمال ہو، سب کا ایک ہی حکم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اس عمل مبارک سے برکت پہنچانا مقصود تھا اور برکت کے لیے طہارت لازم ہے۔ واضح رہے کہ حضرت محمود بن ربیع ؓ کی عمر اس وقت پانچ برس کی تھی جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے گھر میں ڈول سے پانی لے کر ان کے منہ پر کلی کی تھی۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 77) 2۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے ایک دوسری روایت بھی پیش کی ہے جو حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے حضرت مسور بن مخرمہ ؓ اور مروان بن حکم سے نقل کی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اسے دوسرے مقام پر سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس میں عروہ بن مسعود ثقفی اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی والہانہ عقیدت سے متعلق ہیں، فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! میں قیصر و کسریٰ نجاشی اور دیگر ملوک و سلاطین کے درباروں میں بطور سفیر گیا ہوں، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے حواری اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد ﷺ کے اصحاب آپ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر آپ نے تھوکا تو آپ کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔ آپ نے اگر انھیں کوئی حکم دیا تو ہر شخص اس کی بجاآوری کے لیے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا۔ اگر آپ نے وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ کے وضو کے باقی ماندہ پانی کے لیے لڑائی ہو جائے گی۔ جب آپ گفتگو کرتے ہیں تو سناٹا چھا جاتا ہے۔ تمام اصحاب ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں، ان کے دلوں میں آپ کی تعظیم کا یہ عالم ہے کہ آپ کو نظر بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔ ( صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731۔2732) 3۔ امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ استعمال کیا ہوا پانی دوبارہ کام میں لایا جا سکتا ہے اور محل استدلال یہ الفاظ ہیں: رسول اللہ ﷺ کے وضو کے پانی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چھینا جھپٹی کرتے اور اسے زمین پر نہ گرنے دیتے۔ اس میں دونوں احتمال ہیں۔ (1)۔ وضو کے بعد برتن میں بچے ہوئے پانی کے حصول کے لیے کوشش کرتے۔ (2)۔ ماءِ مستعمل حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتےلیکن ماءِ مستعمل کے لیے مسابقت کرنا زیادہ قرین قیاس ہے، کیونکہ اس میں انوار و برکات جسم مبارک کے اتصال کی وجہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ 4۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آپ سے انتہائی محبت و عقیدت تھی، آپ کی ہر ہرادا پر جان قربان کرتے تھے۔ لیکن اصلاحی صاحب کے نزدیک یہ عقیدت محل نظر ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’رہا روایت کا آخری حصہ کہ لوگ وضو کے پانی پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تو میرے نزدیک یہ ابن شہاب کا اضافہ ہے جس کو قابل قبول بنانے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں اس کی تصدیق کرتے تھے۔ ابن شہاب نے یہ اضافہ صرف یہ بتانے کے لیے کیا ہے کہ مسلمانوں کی عقیدت آنحضرتﷺ کے ساتھ بالکل اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت تھی۔ یہ بات اگر کہہ سکتے ہیں تو عام سادہ لوگ کہہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی روایت میں آپ یہ بات نہیں پائیں گے کہ سید نا ابو بکر ؓ اور سیدنا عمر ؓ نے کبھی ایسا کیا ہو۔‘‘ (تدبر حدیث:289/1) اس عبارت میں محدثین عظام بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق جو زہر اگلا گیا ہے وہ قارئین سے مخفی نہیں۔ اس کی بنیاد علمی دلائل نہیں بلکہ ان حضرات کی عقل عیار ہے۔ اس پر ہماری درج ذیل گزارشات ہیں: (1)۔ عروہ بن مسعود ثقفیؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق اپنی قوم کے سامنے جس قسم کے جذبات واحساسات کا اظہار کیا ہے وہ وقت کی اہم ضرورت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کے قلبی تعلق اور حسن ارادت کی واضح دلیل ہے جسے اصلاحی صاحب نے ’’اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت ‘‘ کانام دے کر ان حضرات کا مذاق اڑایا ہے۔ بات صرف رسول اللہ ﷺ کے وضو کا پانی لینے کے متعلق تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کرتے تھے۔ اس کو ’’اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت‘‘ سے تعبیر کرنا عجیب ہے۔ حالانکہ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت ہے کہ آپ نے پانی میں اپنے ہاتھ منہ دھوئے اور اس میں کلی فرمائی، پھر اس پانی کے متعلق حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت بلال ؓ کو نوش جان کرنے کا حکم دیا۔ حضرت اُم سلمہ ؓ نے ان سے کہا کہ یہ متبرک پانی میرے لیے بھی بچا کر رکھیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4328) کیا اسے بھی ’’ اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت‘‘ کہا جائے گا؟ مذکورہ روایت مختصر ہے۔ دوسرے مقام پر تفصیلی روایت میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے جذبات کا بھی ذکر ہے۔ جب عروہ بن مسعود ؓ نے رسول ﷺ سے کہا کہ جب مصیبت آئی تو آپ کے اصحاب آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اپنے جذبات پر کنٹرول نہ رکھ سکے اور اسےبایں الفاظ جواب دیا: ’’جا اور اپنے بت لات کی شرم گاہ چوس۔‘‘ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے اس جواب کے متعلق آپ کیا گوہر افشانی فرمائیں گے؟ اسی طرح حضرت عمرؓ نے بھی حدیبیہ کے موقع پر قریش کی شرائط کے متعلق اپنے جذبات کا بایں الفاظ اظہار فرمایا: ’’اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ! اگر ہم حق پر ہیں تو ان کا دباؤ کیوں قبول کریں اور اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں؟‘‘ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں: میں نے اپنی اس عجلت پسندی کی تلافی کے لیے بہت نیک اعمال کیے۔ حضرت عمر ؓ کے متعلق اصلاحی صاحب کے کیا ارشادات ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
189
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
189
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
189
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
189
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں مطلق طور پر تین الفاظ استعمال کیے ہیں ان کے ساتھ کسی قید کا ذکر نہیں کیا اس بنا پر عنوان کا مفہوم بہت وسیع ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔1۔استعمال اس سے مراد پانی کو کام میں لانے کی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں وہ اس میں شامل ہیں مثلاً: نوش کرنا، نہانا ،کپڑے دھونا ،اور وضو کرنا وغیرہ 2۔ فضل :یہ لفظ بھی اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے یعنی اس سے مراد وہ پانی بھی ہے جو وضو کے بعد برتن میں بچ گیا ہو اور وہ بھی مراد ہے جو اعضاء کو دھوتے وقت ٹپک ٹپک کر کسی جگہ جمع ہو گیا ہو۔3۔وضو:اس میں بھی توسیع ہے کہ اس سے مراد وضوئے حدث بھی ہو سکتا ہے اور وضوئے مستحب بھی ہو سکتا ہے جسے وضو علیٰ وضو کہا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک فضل وضو دونوں معنوں کے اعتبار سے طاہر بھی ہے اور مطہر بھی جبکہ بعض لوگ اسے طاہر تو مانتے ہیں لیکن رفع حدث کے لیے دوبارہ اس قسم کے پانی کو وضو میں استعمال کرنا صحیح نہیں سمجھتے کیونکہ اس سے ایک مرتبہ طہارت حاصل کی جاچکی ہے بعض فقہاء کے نزدیک جو پانی وضو کے لیے استعمال ہو چکا ہو، اس قسم کا ماء مستعمل نجس ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ پانی جو رفع حدث کے لیے ثواب کی نیت سے استعمال کیا گیا ہے اس میں حدیث کے مطابق وہ معاصی بھی شامل ہو گئے ہیں جو وضو کرنے سے پہلے اعضاء سے سر زد ہوئے تھے اس بنا پر یہ نجاست ظاہری نہیں جو بصارت اور حواس ظاہری سے معلوم کی جا سکتی ہو بلکہ یہ نجاست معنوی ہے جس کا تعلق بصیرت اور دل کی بیداری سے ہے ان کے نزدیک اگر کسی کے صغیرہ گناہ دھلے ہیں تو یہ پانی نجاست خفیفہ کا حکم رکھتا ہے اور اگر کوئی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے توماء مستعمل نجاست غلیظہ کے حکم میں ہے لیکن اس فکر کے پس منظر میں کوئی روایت نہیں بلکہ محض عقل کے بل بوتے پر اسے نجس ثابت کیا جا رہا ہے جس کی علمی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں البتہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اس عنوان سے وہ پانی مراد ہے جو وضو کے بعد برتن میں بچ گیا ہو ۔ لیکن ہمارے نزدیک "ٖفضل"سے مراد وہ دونوں صورتیں ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیاہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک اثر اور چند حدیثیں پیش کی ہیں جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذکورہ اثر کو ابن ابی شیبہ (1/313)اور دارقطنی نے موصولاً بیان کیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی میں ڈبو ڈبو کر مسواک کرتے پھر اپنے اہل خانہ کو اس پانی سے وضو کرنے کا حکم دیتے۔ دارقطنی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ تم اس پانی سے وضو کرو جس میں مسواک کو ڈبویا گیا ہے، مسواک چونکہ حدیث کے مطابق (مطهرة للفم)"منہ کو پاک کرنے کا آلہ ہے"جس طرح وجو(مطهرة للبدن) "بدن کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔"منہ کی طہارت کے لیے استعمال شدہ مسواک کا وہی حکم ہے جو بدن کی طہارت کے لیے استعمال شدہ پانی کا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بنا پر حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ اثر بیان فرمایا ہے منہ کی طہارت کے لیے استعمال شدہ مسواک پانی میں ڈالی گئی اگر وہ استعمال کے قابل نہ ہوتا تو حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے استعمال کرنے کا حکم کیوں دیتے؟امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس اثر کا مطلب دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی کے برتن میں مسواک ڈالتے اور اسے استعمال کرتے جب مسواک سے فارغ ہو جاتے تو اس پانی سے وضو کر لیتے۔اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے لیکن اس کی سند درست نہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن التین وغیرہ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے وہ پانی مراد ہے جس میں مسواک کو نرم کرنے کے لیے تر کیا جاتا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل مذکور سے پانی میں کوئی تغیر نہیں آیا اور انھوں نے اس غیر متغیر پانی کو استعمال کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح پانی کو صرف استعمال کرنے سے بھی اس میں کوئی تغیر نہیں آتا لہٰذا اس سے دوبارہ طہارت حاصل کرنا ممنوع نہیں ہو گا۔( فتح الباری:1/385۔)
جریر بن عبداللہ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کے مسواک کے بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیں۔یعنی مسواک جس پانی میں ڈوبی رہتی تھی، اس پانی سے گھر کے لوگوں کو بخوشی و ضو کرنے کے لیے کہتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے، یہ وہی محمود ہیں جن کے چہرے پر رسول اللہ ﷺ نے انہی کے کنویں کے پانی سے کلی فرمائی تھی جب کہ وہ بچے تھے۔ حضرت عروہ جناب مسور وغیرہ سے بیان کرتے ہیں، ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے: جب نبی اکرم ﷺ وضو فرماتے تو صحابہ کرام ؓ آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو لینے کے لیے آپس میں جھگڑتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے حضرت محمود بن ربیع ؓ کے ایک واقعے سے استدلال کیا ہے، یہ استدلال اس صورت میں صحیح ہو سکتا ہے جب قائم کردہ عنوان میں وسعت پیدا کی جائے بصورت دیگر یہاں وضوئے تام تو دور کی بات ہے وضوئے ناقص بھی نہیں، گویا امام بخاری ؒ پانی کے استعمال میں تعمیم کر رہے ہیں، کلی بھی پانی کے استعمال کی ایک شکل ہے، لہٰذا ان کے نزدیک پانی کسی بھی طرح استعمال ہو، سب کا ایک ہی حکم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اس عمل مبارک سے برکت پہنچانا مقصود تھا اور برکت کے لیے طہارت لازم ہے۔ واضح رہے کہ حضرت محمود بن ربیع ؓ کی عمر اس وقت پانچ برس کی تھی جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے گھر میں ڈول سے پانی لے کر ان کے منہ پر کلی کی تھی۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 77) 2۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے ایک دوسری روایت بھی پیش کی ہے جو حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے حضرت مسور بن مخرمہ ؓ اور مروان بن حکم سے نقل کی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اسے دوسرے مقام پر سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس میں عروہ بن مسعود ثقفی اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی والہانہ عقیدت سے متعلق ہیں، فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! میں قیصر و کسریٰ نجاشی اور دیگر ملوک و سلاطین کے درباروں میں بطور سفیر گیا ہوں، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے حواری اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد ﷺ کے اصحاب آپ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر آپ نے تھوکا تو آپ کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔ آپ نے اگر انھیں کوئی حکم دیا تو ہر شخص اس کی بجاآوری کے لیے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا۔ اگر آپ نے وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ کے وضو کے باقی ماندہ پانی کے لیے لڑائی ہو جائے گی۔ جب آپ گفتگو کرتے ہیں تو سناٹا چھا جاتا ہے۔ تمام اصحاب ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں، ان کے دلوں میں آپ کی تعظیم کا یہ عالم ہے کہ آپ کو نظر بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔ ( صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731۔2732) 3۔ امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ استعمال کیا ہوا پانی دوبارہ کام میں لایا جا سکتا ہے اور محل استدلال یہ الفاظ ہیں: رسول اللہ ﷺ کے وضو کے پانی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چھینا جھپٹی کرتے اور اسے زمین پر نہ گرنے دیتے۔ اس میں دونوں احتمال ہیں۔ (1)۔ وضو کے بعد برتن میں بچے ہوئے پانی کے حصول کے لیے کوشش کرتے۔ (2)۔ ماءِ مستعمل حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتےلیکن ماءِ مستعمل کے لیے مسابقت کرنا زیادہ قرین قیاس ہے، کیونکہ اس میں انوار و برکات جسم مبارک کے اتصال کی وجہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ 4۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آپ سے انتہائی محبت و عقیدت تھی، آپ کی ہر ہرادا پر جان قربان کرتے تھے۔ لیکن اصلاحی صاحب کے نزدیک یہ عقیدت محل نظر ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’رہا روایت کا آخری حصہ کہ لوگ وضو کے پانی پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تو میرے نزدیک یہ ابن شہاب کا اضافہ ہے جس کو قابل قبول بنانے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں اس کی تصدیق کرتے تھے۔ ابن شہاب نے یہ اضافہ صرف یہ بتانے کے لیے کیا ہے کہ مسلمانوں کی عقیدت آنحضرتﷺ کے ساتھ بالکل اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت تھی۔ یہ بات اگر کہہ سکتے ہیں تو عام سادہ لوگ کہہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی روایت میں آپ یہ بات نہیں پائیں گے کہ سید نا ابو بکر ؓ اور سیدنا عمر ؓ نے کبھی ایسا کیا ہو۔‘‘ (تدبر حدیث:289/1) اس عبارت میں محدثین عظام بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق جو زہر اگلا گیا ہے وہ قارئین سے مخفی نہیں۔ اس کی بنیاد علمی دلائل نہیں بلکہ ان حضرات کی عقل عیار ہے۔ اس پر ہماری درج ذیل گزارشات ہیں: (1)۔ عروہ بن مسعود ثقفیؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق اپنی قوم کے سامنے جس قسم کے جذبات واحساسات کا اظہار کیا ہے وہ وقت کی اہم ضرورت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کے قلبی تعلق اور حسن ارادت کی واضح دلیل ہے جسے اصلاحی صاحب نے ’’اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت ‘‘ کانام دے کر ان حضرات کا مذاق اڑایا ہے۔ بات صرف رسول اللہ ﷺ کے وضو کا پانی لینے کے متعلق تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کرتے تھے۔ اس کو ’’اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت‘‘ سے تعبیر کرنا عجیب ہے۔ حالانکہ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت ہے کہ آپ نے پانی میں اپنے ہاتھ منہ دھوئے اور اس میں کلی فرمائی، پھر اس پانی کے متعلق حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت بلال ؓ کو نوش جان کرنے کا حکم دیا۔ حضرت اُم سلمہ ؓ نے ان سے کہا کہ یہ متبرک پانی میرے لیے بھی بچا کر رکھیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4328) کیا اسے بھی ’’ اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت‘‘ کہا جائے گا؟ مذکورہ روایت مختصر ہے۔ دوسرے مقام پر تفصیلی روایت میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے جذبات کا بھی ذکر ہے۔ جب عروہ بن مسعود ؓ نے رسول ﷺ سے کہا کہ جب مصیبت آئی تو آپ کے اصحاب آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اپنے جذبات پر کنٹرول نہ رکھ سکے اور اسےبایں الفاظ جواب دیا: ’’جا اور اپنے بت لات کی شرم گاہ چوس۔‘‘ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے اس جواب کے متعلق آپ کیا گوہر افشانی فرمائیں گے؟ اسی طرح حضرت عمرؓ نے بھی حدیبیہ کے موقع پر قریش کی شرائط کے متعلق اپنے جذبات کا بایں الفاظ اظہار فرمایا: ’’اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ! اگر ہم حق پر ہیں تو ان کا دباؤ کیوں قبول کریں اور اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں؟‘‘ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں: میں نے اپنی اس عجلت پسندی کی تلافی کے لیے بہت نیک اعمال کیے۔ حضرت عمر ؓ کے متعلق اصلاحی صاحب کے کیا ارشادات ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ نے اپنے اہل خانہ کو اس پانی سے وضو کرنے کا حکم دیا جو مسواک کرنے کے بعد بچ رہا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے، کہا ہم سے میرے باپ نے، انھوں نے صالح سے سنا۔ انھوں نے ابن شہاب سے، کہا انھیں محمود بن الربیع نے خبر دی، ابن شہاب کہتے ہیں محمود وہی ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تو رسول کریم ﷺ نے ان ہی کے کنویں (کے پانی) سے ان کے منہ میں کلی ڈالی تھی اور عروہ نے اسی حدیث کو مسور وغیرہ سے بھی روایت کیا ہے اور ہر ایک (راوی) ان دونوں میں سے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ وضو فرماتے تھے تو آپ کے بچے ہوئے وضو کے پانی پر صحابہ ؓ جھگڑنے کے قریب ہو جاتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہ ایک طویل حدیث کا حصہ ہے جو کتاب الشروط میں نقل کی ہے اور یہ صلح حدیبیہ کا واقعہ ہے جب مشرکوں کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی آپ سے گفتگو کرنے آیا تھا۔ اس نے واپس ہوکر مشرکین مکہ سے صحابہ کرام ؓ کی جان نثاری کو والہانہ انداز میں بیان کرتے ہوئے بتلایا کہ وہ ایسے سچے فدائی ہیں کہ آپ کے وضو سے جو پانی بچ رہتا ہے اس کو لینے کے لیے ایسے دوڑتے ہیں گویا قریب ہے کہ لڑمریں گے۔ اس سے بھی آبِ مستعمل کا پاک ہونا ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Shihab (RA): Mahmud bin Ar-Rabi' who was the person on whose face the Prophet (ﷺ) had ejected a mouthful of water from his family's well while he was a boy, and 'Urwa (on the authority of Al-Miswar and others) who testified each other, said, "Whenever the Prophet (ﷺ) , performed ablution, his companions were nearly fighting for the remains of the water."