تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے فیصلہ کن عنوان قائم نہیں کیا، البتہ پیش کردہ معلق اور متصل روایات سے ان کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ روزے کے لیے رات کو نیت کرنا ضروری خیال نہیں کرتے بلکہ ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو فرض روزے کے لیے رات کے وقت نیت کرنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ مذکورہ روایات میں مطلق نیت کا ذکر ہے۔ اس میں فرض یا نفل روزوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ لیکن جمہور علماء نے امام بخاری کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ فرض روزے کے لیے رات ہی سے نیت کرنا ضروری ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے فجر، یعنی صبح صادق سے پہلے روزے کی پختہ نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصوم، حدیث:2454) پھر حدیث میں ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث:1) (2) البتہ نفل روزے کی زوال سے پہلے بھی نیت کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’تب میں روزہ دار ہوں۔‘‘ پھر آپ دوسرے دن ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کچھ حلوہ بطور ہدیہ بھیجا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ مجھے دکھاؤ، بےشک میں نے روزے کی حالت میں صبح کی ہے، پھر آپ نے وہ حلوہ کھا لیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2714(1154)) (2) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث عاشوراء سے متعلق ہے جو فرض نہیں، نیز اس میں دوپہر سے پہلے کھانے والوں کو بھی روزہ پورا کرنے کا حکم ہے جو عاشوراء کے لیے خصوصیت کا باعث ہے کیونکہ عام روزے کی دوپہر کے وقت نیت کی جا سکتی ہے بشرطیکہ صبح کے بعد آدمی نے کچھ کھایا پیا نہ ہو۔ (3) واضح رہے کہ نیت محض دل کے ارادے کا نام ہے، اسے زبان سے ادا کرنے کی ضرورت نہیں، لہذا وبصوم غد نويت من شهر رمضان کے الفاظ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔