تشریح:
(1) دوران سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق مختلف آراء ہیں: ظاہری حضرات کا خیال ہے کہ سفر میں روزہ چھوڑنا واجب ہے۔ اگر کوئی دوران سفر میں روزہ رکھے گا تو اسے کوئی اجروثواب نہیں ملے گا، جبکہ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا اور چھوڑنا دونوں برابر ہیں، ان میں کوئی بھی افضل نہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ دونوں صورتوں میں جو آسان ہو اسے اختیار کر لینا چاہیے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا ہے، اس لیے ہمارے نزدیک روزہ رکھنا افضل ہے اور نہ رکھنا رخصت ہے بشرطیکہ روزہ رکھنے میں کوئی دشواری یا مشقت نہ ہو اور نہ فخر و غرور میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہی ہو۔ (2) جو شخص رخصت قبول کرنے سے اعراض کرتا ہو یا اس کے لیے روزہ نقصان دہ ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑ دینا بہتر ہے۔ (3) صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ مذکورہ سفر ماہ رمضان میں تھا (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2559(1101)) اور رمضان میں سفر غزوۂ بدر یا فتح مکہ کے وقت ہوا ہے۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ غزوۂ بدر میں شریک نہیں تھے، اس لیے یہ سفر فتح مکہ کے وقت ہی تھا۔ واللہ أعلم۔ (عمدةالقاري:131/8) (4) سورج غروب ہو چکا تھا لیکن اس کے آثار ابھی باقی تھے، اس بنا پر صحابی نے گمان کیا کہ سورج ابھی غروب نہیں ہوا، اس لیے انہوں نے دوبارہ، سہ بارہ اپنا سوال دہرایا، اس کا بار بار تکرار کسی مفاد کی وجہ سے نہیں تھا۔ واضح رہے کہ یہ صحابئ رسول حضرت بلال ؓ تھے۔ (عمدةالقاري:131/8) (5) حضرت جریر کی متابعت امام بخاری ؒ نے خود بیان کی ہے۔ (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث:5297) نیز ابوبکر بن عیاش کی متابعت بھی امام بخاری نے ذکر کی ہے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1958)