تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ ماہ رمضان میں فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے، لوگ بھی آپ کے ہمراہ روزہ رکھے ہوئے تھے۔ آپ سے عرض کی گئی: لوگوں کو روزے کے باعث سخت تکلیف ہے اور وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اسے لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف بلند کیا تاکہ لوگ افطار کرنے میں آپ کا اتباع کریں۔ پھر آپ نے لوگوں کى آسانی کے لیے روزہ افطار کر دیا کیونکہ روزے کے سبب کمزوری ہونے کے باعث دشمن کے مقابلے میں حرج واقع ہونے کا امکان تھا۔ (2) دوران سفر میں روزہ افطار کرنے کے کئی ایک اسباب ہیں، مثلا: ٭ جو انسان روزے کی وجہ سے مشقت میں پڑ جائے۔ ٭ جسے روزے کی وجہ سے تکبر اور خودپسندی کا اندیشہ ہو۔ ٭ اسے رخصت سے بے زاری اور روگردانی کا خطرہ ہو۔ ایسے حالات میں روزہ ترک کر دینا افضل ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ روزہ ترک کرنا صرف مذکورہ تین اسباب ہی پر منحصر نہیں بلکہ اتباع اور اقتدا کے لیے چھوڑا جائے تاکہ اس کی پیروی کر کے مذکورہ تینوں اسباب سے بچ جائے تو ایسا کرنا بھی افضل اور بہتر ہے لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے اسے صرف بیان جواز پر محمول کیا ہے، افضل اور بہتر قرار نہیں دیا۔ ہم اس سلسلے میں پہلے وضاحت کر چکے ہیں۔ (فتح الباري:238/4)