(1) امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ کی اس حدیث کے مختلف طرق بیان کیے ہیں۔ کسی میں ہے کہ پوچھنے والا مرد تھا اور کسی روایت کے مطابق دریافت کرنے والی عورت تھی۔ کوئی ایک ماہ کے روزوں کا ذکر کرتا ہے اور کسی میں پندرہ روزوں کا بیان ہے، کسی میں نذر کے روزوں کی وضاحت ہے، لیکن ان اختلافات سے حدیث میں کوئی نقص نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ مختلف واقعات ہوں اور سوال کرنے والے متعدد ہوں۔ بہرحال اتنی بات ضرور ہے کہ میت کی طرف سے روزہ بھی رکھا جا سکتا ہے اور حج بھی کیا جا سکتا ہے۔ (2) اہل علم نے ان مختلف روایات کو اس طرح جمع کیا ہے: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس کے ساتھ ایک عورت بھی تھی۔ مرنے والی ان دونوں کی بہن تھی، جس پر "ام" کا لفظ مجازاً کہا گیا ہے کیونکہ وہ ان دونوں سے عمر میں بڑی تھی، اس کے ذمے پندرہ روزے نذر کے تھے اور پندرہ قضا کے تھے، اس طرح مجموعہ ایک ماہ ہو جائے گا۔ واللہ أعلم
ملحوظہ: مذکورہ روایات حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے جبکہ کتب حدیث میں ان دونوں حضرات کا فتویٰ ان کی اپنی بیان کردہ حدیث کے خلاف ہے۔ احناف کے ہاں یہ قاعدہ مشہور ہے کہ جب کسی راوی کا فتویٰ اس کی بیان کردہ روایت کے خلاف ہو تو وہ روایت اس کے نزدیک منسوخ ہوتی ہے، لہذا یہ روایات قابل عمل نہیں ہیں، چنانچہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: میت کی طرف سے روزے نہ رکھو بلکہ اس کی طرف سے کھانا کھلاؤ۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:254/4) اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی طرف سے روزے نہ رکھے۔ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:718) پہلی بات تو یہ ہے کہ ان آثار کے متعلق محدثین نے کلام کیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اصل اعتبار تو ان کی بیان کردہ روایت کا ہے اور اس کی درایت، اس کی بیان کردہ روایت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ (فتح الباري:247/4)