تشریح:
(1) ان احادیث میں تین چیزوں کو روزہ افطار کرنے کے لیے مدار بنایا گیا ہے: ٭ رات کا اندھیرا مشرقی افق سے اوپر آ جائے۔ ٭ جب مغربی افق سے دن چلا جائے۔ ٭ جب سورج غروب ہو جائے۔ ان امور کے یقینی وقوع کے بعد روزہ افطار کرنے میں مزید دیر نہیں کرنی چاہیے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد بھی یہی ہے کہ غروب آفتاب کے بعد مزید رات کے کسی حصے کا روزہ صحیح نہیں جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کے واقعے سے ظاہر ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنی چاہیے بشرطیکہ غروب آفتاب ہو جائے۔ احتیاط کے پیش نظر افطاری میں دیر کرنا اہل کتاب کی عادت ہے جن کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں روزہ جلدی افطار کرنے کا یہ مطلب ہے کہ جب سورج غروب ہونا ثابت ہو جائے تو افطاری میں تاخیر نہ کی جائے۔ (فتح الباري:251/4) (3) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو ستو تیار کرنے کے لیے فرمایا تھا۔ چونکہ دیار عرب میں پہاڑوں کی کثرت تھی، پہاڑی علاقے میں غروب آفتاب کے بعد بھی ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی سورج باقی ہے مگر حقیقت میں وہ غروب ہو چکا ہوتا ہے۔ حضرت بلال ؓ نے بار بار اس خدشے کے پیش نظر اپنے خیال کا اظہار کیا جو حقیقت کے مطابق نہ تھا۔ واللہ أعلم