Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
44. Chapter: The performance of ablution by a man along with his wife. The utilization of water remaining after a woman has performed ablution. Umar performed ablution with warm water and with water brought from the house of a Christian woman
باب:اس بارے میں کہ خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ وضو کرنا اور عورت کا بچا ہوا پانی استعمال کرنا جائز ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The performance of ablution by a man along with his wife. The utilization of water remaining after a woman has performed ablution. Umar performed ablution with warm water and with water brought from the house of a Christian woman)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گرم پانی سے اور عیسائی عورت کے گھر کے پانی سے وضو کیا۔تشریح : یہ دوجداجدااثر ہیں پہلے کو سعید بن منصور نے اور دوسرے کو شافعی اور عبدالرزاق نے نکالا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض صرف یہ ہے کہ جیسے بعض لوگ عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت کرنا منع سمجھتے تھے، اسی طرح گرم پانی سے یاکافر کے گھر کے پانی سے بھی منع سمجھتے تھے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ گرم پانی سے بھی اور کافر کے گھر کے پانی سے بھی بشرطیکہ اس کا پاک ہونا یقینی ہو، طہارت کی جا سکتی ہے۔
196.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مرد، عورتیں مل کر وضو کیا کرتے تھے۔
تشریح:
1۔ اس حدیث میں ہے کہ مرد،عورتیں اکٹھے وضو کیا کرتے تھے۔ اس کے لیے لفظ (جميعاً) استعمال ہوا ہے۔ اس کے دو معنی ہیں: ( كلهم) اس کامطلب یہ ہے کہ سب وضو کرتے تھے۔ اس میں وقت کی رعایت نہیں ہوگی، یعنی سب وضو کرتے تھے، خواہ وقت الگ الگ ہو۔ (معاً) اس لفظ كے اعتبار سے وقت كی رعایت بھی ہوگی، یعنی ایک ہی وقت میں ایک ساتھ وضو کرلیتے تھے تو ممکن ہے کہ مرد، عورتوں کا مل کروضو کرنا نزول حجاب سے پہلے کا واقعہ ہو یا اس سے وہ مرد عورتیں مراد ہوں جو ایک دوسرے کے محرم ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے میاں بیوی مراد ہوں۔ اس حدیث کا یہ بھی مطلب بیان کیا جاتا ہے کہ مرد ایک جگہ مل کر وضو کرتے اور عورتیں ان سے علیحدہ ایک جگہ مل کر وضو کرتیں۔ (فتح الباري: 392/1) لیکن ایک روایت میں صراحت ہے کہ سب ایک ہی برتن سے وضو کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 79) لہٰذا یہ آخری مفہوم صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے اس روایت سے بایں طور پر استدلال کیا ہے جب عہد نبوی میں مرد عورتیں اکٹھے وضو کرتےتھے اور برتن بھی ایک ہوتا تھا، اسی میں ہاتھ ڈال کر وضو کیا جاتا تھا، اس موقع پر یہ احتیاط نہیں ہو سکتی کہ مرد، عورتوں کے ہاتھ بیک وقت برتن میں پڑتے ہوں اور اکٹھے ہی برتن سے نکلتے ہوں، پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام ایک ہی وقت وضو سے فارغ ہوتے ہوں۔ اگر مرد پہلے فارغ ہو گیا تو بقیہ پانی عورت کے حق میں باقی ماندہ ہوا اور اگر عورت پہلے فوت ہوگئی تو وہ پانی مرد کے لیے باقی بچ رہا۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک کے لیے بقیہ پانی ناقابل استعمال یا ناجائز ہوتا تو عہد رسالت میں ہرگز اس کی اجازت نہ دی جاتی۔ جب اجتماعی طور پر کوئی خرابی لازم نہیں آتی توانفرادی طور پر بھی نہیں آنی چاہیے۔ البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد کو عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع کیا ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 82) محدثین عظام نے اس کے کئی ایک جوابات دیے ہیں جو حسب ذیل ہیں: (الف) ۔ نہی کا تعلق اس پانی سے ہے جو اعضائے وضو سے گرے جسے ماءِ مستعمل کہاجاتا ہے اور اباحت کا تعلق اس پانی سے ہے جو وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ رہے۔ (ب)۔ نہی تحریم کے لیے نہیں بلکہ کراہت تنزیہی ہے اور اس قسم کی کراہت اباحت کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے۔ گویا عورت سے بچا ہوا پانی مرد کے لیے استعمال کرنا خلاف اولیٰ ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کاجواب یہ ہے کہ عام طور پر عورتیں طہارت کے سلسلے میں بے احتیاط ہوتی ہیں، اس لیے مردوں کو حکم ہوا کہ وہ عورتوں کا استعمال شدہ پانی دوبارہ استعمال نہ کریں۔ اس میں عام طبقوں کی رعایت کی گئی ہے، لہٰذا اجتماعی اور انفرادی حالت کا فرق برقرار رکھا گیا ہے۔ اگر مرد عورت اجتماعی طور پر وضو کریں تو کسی کو ناگواری نہیں ہوتی، لیکن اگر عورت پانی بچا دے تو مرد کو اس کے استعمال کرنے میں گھن محسوس ہوتی ہے، جیسا کہ ایک جگہ کھانا کھانے میں کسی کوتکلیف نہیں ہوتی، لیکن کسی کا بقیہ کھانا تناول کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ اس بنا پر نہ اجتماعی طور پر بیک وقت اکٹھے وضو کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور نہ عورت کو مرد کے بقیہ پانی کے استعمال ہی سے روکا گیا ہے، بلکہ صرف مرد کوعورت کے باقی چھوڑے ہوئے پانی کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ اس میں عام طبیعتوں کے رجحان کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ شریعت وساوس کا سد باب کرنا چاہتی ہے تاکہ عبادت شرح صدر سے ہو۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
193
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
193
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
193
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
193
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں دوعنوان قائم کیے ہیں:(الف)۔اگربیوی خاوند دونوں ایک ساتھ وضو کریں تو اس کا کیا حکم ہے؟(ب)۔عورت کے وضو سے بچا ہواپانی مرد کے حق میں استعمال کے قابل ہے یا نہیں؟اصل مقصد دوسرے عنوان کو ثابت کرناہے۔پہلا عنوان صرف تمہید کے لیے ہے تاکہ دوسرے عنوان کوثابت کرنے کے لیے راستہ ہموار ہوسکے اور اسے سمجھنے کے لیے آسانی پیداہوکیونکہ پہلے عنوان میں بیان شدہ مسئلے کے متعلق کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔اگربیوی خاوند ایک ساتھ وضو کرتے ہیں تو تمام ائمہ کے نزدیک جائز اور مباح ہے،البتہ دوسرے عنوان میں زیربحث مسئلے کے متعلق بعض فقہاء کو اختلاف ہے۔ان کے نزدیک اگرعورت نے مرد کی عدم موجوگی میں وضو کیاہے تو باقی ماندہ پانی مرد کے لیے ناقابل استعمال ہوجاتاہے کیونکہ عام طور پر عورتیں طہارت ونظافت کے سلسلے میں غیر محتاط ہوتی ہیں۔بچوں کی دیکھ بھال اورگھر کے کام کاج کے پیش نظر ،ایساہونابعید نہیں،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ آدمی ،عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو نہ کرے۔( سنن ابی داؤد الطھارۃ حدیث 82۔) اس سلسلے میں جمہور فقہاء کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے وضو سے بچا ہوا پانی پاک ہے اور مرد کے حق میں مباح الاستعمال ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان جمہور کے ساتھ ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے یادوالگ الگ واقعات ہیں۔بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عیسائی عورت کے گھر سے گرم پانی لے کر وضو فرمایا ،یعنی یہ ایک ہی واقعہ ہے لیکن بعض حضرات کاخیال ہے کہ گرم پانی سے وضو کرنے کا واقعہ الگ ہے اور حج کےموقع پر ایک نصرانی عورت کے گھر سے پانی لے کر استعمال کرناایک دوسرا واقعہ ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کارجحان یہ ہے کہ یہ دوالگ الگ واقعات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا انھیں پیش کرنے سے مقصد یہ ہے کہ گھروں میں عام طور پر عورتیں پانی گرم کرتی ہیں اور اسے گرم کرتے وقت اس میں انگلی ڈال کر دیکھتی بھی ہیں کہ اپنی گرم ہوا ہے یا نہیں ،اس لیے ابتداء پانی کاتعلق عورتوں سے ہوتا ہےپھر مردوں سے نیزجس طرح آدمی کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح عوت کو بھی ہوسکتی ہے ممکن ہے کہ عورت نے پانی گرم کرکے اس سے وضو کرلیاہو اور پانی اس کا پس ماندہ ہو لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سلسلے میں کوئی تحقیق نہیں فرمائی کہ اس گرم پانی کو تم نے پہلے استعمال تو نہیں کیا؟اس سے معلوم ہواکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اس مسئلے کے متعلق کوئی شک نہیں کہ عورت کا باقی ماندہ پانی استعمال ہوسکتا ہے۔اتنی سی گنجائش سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسئلے کاجواز ثابت کیا ہے۔آپ نے اس قسم کے انداز کو بکثرت استعمال فرمایا ہے۔اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوران سفر میں ایک نصرانیہ کے گھر سے پانی لیا اور وضو فرمالیا،حالانکہ یہ ممکن تھا کہ وہ عورت کسی مسلمان مرد کے عقد میں ہوا اور اس نے مسلمان شوہر کی حق ادائیگی کے لیے غسل کیا ہوااورمذکورہ پانی،غسل سے باقی ماندہ ہو،اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ صورت حال کو معلوم کرلیا جاتا،لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سلسلے میں کوئی استفسار نہیں کیا۔اس سے معلوم ہواکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک عورت کے استعمال سے بچا ہوا پانی ایک اور قابل استعمال تھا،بصورت دیگر وہ اس کی ضرور تحقیق کرلیتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گرم پانی سے اور عیسائی عورت کے گھر کے پانی سے وضو کیا۔تشریح : یہ دوجداجدااثر ہیں پہلے کو سعید بن منصور نے اور دوسرے کو شافعی اور عبدالرزاق نے نکالا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض صرف یہ ہے کہ جیسے بعض لوگ عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت کرنا منع سمجھتے تھے، اسی طرح گرم پانی سے یاکافر کے گھر کے پانی سے بھی منع سمجھتے تھے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ گرم پانی سے بھی اور کافر کے گھر کے پانی سے بھی بشرطیکہ اس کا پاک ہونا یقینی ہو، طہارت کی جا سکتی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مرد، عورتیں مل کر وضو کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں ہے کہ مرد،عورتیں اکٹھے وضو کیا کرتے تھے۔ اس کے لیے لفظ (جميعاً) استعمال ہوا ہے۔ اس کے دو معنی ہیں: ( كلهم) اس کامطلب یہ ہے کہ سب وضو کرتے تھے۔ اس میں وقت کی رعایت نہیں ہوگی، یعنی سب وضو کرتے تھے، خواہ وقت الگ الگ ہو۔ (معاً) اس لفظ كے اعتبار سے وقت كی رعایت بھی ہوگی، یعنی ایک ہی وقت میں ایک ساتھ وضو کرلیتے تھے تو ممکن ہے کہ مرد، عورتوں کا مل کروضو کرنا نزول حجاب سے پہلے کا واقعہ ہو یا اس سے وہ مرد عورتیں مراد ہوں جو ایک دوسرے کے محرم ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے میاں بیوی مراد ہوں۔ اس حدیث کا یہ بھی مطلب بیان کیا جاتا ہے کہ مرد ایک جگہ مل کر وضو کرتے اور عورتیں ان سے علیحدہ ایک جگہ مل کر وضو کرتیں۔ (فتح الباري: 392/1) لیکن ایک روایت میں صراحت ہے کہ سب ایک ہی برتن سے وضو کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 79) لہٰذا یہ آخری مفہوم صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے اس روایت سے بایں طور پر استدلال کیا ہے جب عہد نبوی میں مرد عورتیں اکٹھے وضو کرتےتھے اور برتن بھی ایک ہوتا تھا، اسی میں ہاتھ ڈال کر وضو کیا جاتا تھا، اس موقع پر یہ احتیاط نہیں ہو سکتی کہ مرد، عورتوں کے ہاتھ بیک وقت برتن میں پڑتے ہوں اور اکٹھے ہی برتن سے نکلتے ہوں، پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام ایک ہی وقت وضو سے فارغ ہوتے ہوں۔ اگر مرد پہلے فارغ ہو گیا تو بقیہ پانی عورت کے حق میں باقی ماندہ ہوا اور اگر عورت پہلے فوت ہوگئی تو وہ پانی مرد کے لیے باقی بچ رہا۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک کے لیے بقیہ پانی ناقابل استعمال یا ناجائز ہوتا تو عہد رسالت میں ہرگز اس کی اجازت نہ دی جاتی۔ جب اجتماعی طور پر کوئی خرابی لازم نہیں آتی توانفرادی طور پر بھی نہیں آنی چاہیے۔ البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد کو عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع کیا ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 82) محدثین عظام نے اس کے کئی ایک جوابات دیے ہیں جو حسب ذیل ہیں: (الف) ۔ نہی کا تعلق اس پانی سے ہے جو اعضائے وضو سے گرے جسے ماءِ مستعمل کہاجاتا ہے اور اباحت کا تعلق اس پانی سے ہے جو وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ رہے۔ (ب)۔ نہی تحریم کے لیے نہیں بلکہ کراہت تنزیہی ہے اور اس قسم کی کراہت اباحت کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے۔ گویا عورت سے بچا ہوا پانی مرد کے لیے استعمال کرنا خلاف اولیٰ ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کاجواب یہ ہے کہ عام طور پر عورتیں طہارت کے سلسلے میں بے احتیاط ہوتی ہیں، اس لیے مردوں کو حکم ہوا کہ وہ عورتوں کا استعمال شدہ پانی دوبارہ استعمال نہ کریں۔ اس میں عام طبقوں کی رعایت کی گئی ہے، لہٰذا اجتماعی اور انفرادی حالت کا فرق برقرار رکھا گیا ہے۔ اگر مرد عورت اجتماعی طور پر وضو کریں تو کسی کو ناگواری نہیں ہوتی، لیکن اگر عورت پانی بچا دے تو مرد کو اس کے استعمال کرنے میں گھن محسوس ہوتی ہے، جیسا کہ ایک جگہ کھانا کھانے میں کسی کوتکلیف نہیں ہوتی، لیکن کسی کا بقیہ کھانا تناول کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ اس بنا پر نہ اجتماعی طور پر بیک وقت اکٹھے وضو کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور نہ عورت کو مرد کے بقیہ پانی کے استعمال ہی سے روکا گیا ہے، بلکہ صرف مرد کوعورت کے باقی چھوڑے ہوئے پانی کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ اس میں عام طبیعتوں کے رجحان کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ شریعت وساوس کا سد باب کرنا چاہتی ہے تاکہ عبادت شرح صدر سے ہو۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے نافع سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں عورت اور مرد سب ایک ساتھ (ایک ہی برتن سے) وضو کیا کرتے تھے۔ (یعنی وہ مرد اور عورتیں جو ایک دوسرے کے محرم ہوتے۔)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar: "During the lifetime of Allah's Messenger (ﷺ) men and women used to perform ablution together."