تشریح:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ نے نفلی روزوں کے مسائل و احکام بیان کرنے کا آغاز فرمایا ہے۔ ان کے متعلق پہلا مسئلہ یہ بیان کیا کہ نفلی روزہ رکھنے کے بعد اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر اسے کسی ضرورت کے پیش نظر توڑ دیا جائے تو کیا اس کی قضا دینا لازم ہے یا نہیں؟ عنوان سے امام بخاری ؒ کا یہ رجحان معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی سبب کے پیش نظر اسے توڑا جائے تو اس کی قضا ضروری نہیں۔ اگر بلاوجہ اسے قبل از وقت افطار کر دیا جائے تو اس کی قضا دی جائے۔ اگرچہ پیش کردہ روایت میں قسم دینے کا ذکر نہیں ہے، تاہم سنن بیہقی میں ہے کہ حضرت سلمان ؓ نے فرمایا: میں تجھے روزہ چھوڑ دینے کے متعلق قسم دیتا ہوں۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:276/4) (2) پیش کردہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نفلی روزہ کس معقول وجہ سے توڑا جا سکتا ہے اور اس کا پورا کرنا ضروری نہیں اور نہ اس کی قضا دینا ہی ضروری ہے ہاں، اگر آدمی چاہے تو بعد میں اس کی جگہ اور روزہ رکھ لے جیسا کہ حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے کھانا تیار کیا۔ آپ ﷺ اپنے صحابہ سمیت تشریف لائے۔ جب کھانا سامنے پیش کر دیا گیا تو ایک آدمی نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے بھائی نے تمہارے لیے کھانا تیار کیا ہے اور بڑے تکلف سے کام لیا ہے۔ اپنا روزہ افطار کر دو اور اگر چاہو تو بعد میں اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لو۔‘‘ (السنن الکبرٰی للبیھقي:279/4) ان روایات کا تقاضا ہے کہ نفلی روزہ کسی وجہ سے توڑا جا سکتا ہے اور اس کی قضا دینا ضروری نہیں اور قضاء کے وجوب پر جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ قابل حجت نہیں ہیں۔ (فتح الباري:270/4)