قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّوْمِ (بَابُ مَنْ أَقْسَمَ عَلَى أَخِيهِ لِيُفْطِرَ فِي التَّطَوُّعِ،)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَلَمْ يَرَ عَلَيْهِ قَضَاءً إِذَا كَانَ أَوْفَقَ لَهُ

1968. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً فَقَالَ لَهَا مَا شَأْنُكِ قَالَتْ أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا فَجَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا فَقَالَ كُلْ قَالَ فَإِنِّي صَائِمٌ قَالَ مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ قَالَ فَأَكَلَ فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُومُ قَالَ نَمْ فَنَامَ ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ فَقَالَ نَمْ فَلَمَّا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ قَالَ سَلْمَانُ قُمْ الْآنَ فَصَلَّيَا فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ سَلْمَانُ

مترجم:

ترجمۃ الباب: اور اس نے روزہ توڑ دیا تو توڑنے والے پر قضاء واجب نہیں ہے جب کہ روزہ نہ رکھنا اس کو مناسب ہو۔اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر بلا وجہ نفل روزہ قصداً توڑ ڈالے تو اس پر قضا لازم ہوگی۔ اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں اگر نفل روزہ توڑ ڈالے تو اس کی قضا مستحب ہے عذر سے توڑے یا بے عذر۔ حنابلہ اور جمہور بھی اسی کے قائل ہیں۔ حنفیہ کے نزدیک ہر حال میں قضا واجب ہے اور مالکیہ کہتے ہیں کہ جب عمداً بلا عذر توڑ ڈالے تو قضا لازم ہوگی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ظاہرے ہے اور اسی کو ترجیح حاصل ہے۔

1968.

حضرت ابو جحیفہ  ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابودرداء  ؓ کے مابین بھائی چارہ کرادیاتھا، چنانچہ ایک دن حضرت سلمان  ؓ حضرت ابودرداء  ؓ سے ملنے گئے تو انہوں نے ام درداء  ؓ کو انتہائی پراگندہ حالت میں دیکھا۔ انھوں نے ان سے دریافت کیا: تمہارا کیا حال ہے؟وہ بولیں کہ تمہارے بھائی حضرت ابودرداء  ؓ کو دنیا کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اتنے میں حضرت ابودرداء ؓ بھی آگئے، انھوں نے حضرت سلمان  ؓ کے لیے کھانا تیار کیا، پھر حضرت سلمان ؓ سے گویا ہوئے: تم کھاؤ میں تو روزے سے ہوں۔ حضرت سلمان  ؓ نے کہا: جب تک تم نہیں کھاؤ گے میں بھی نہیں کھاؤ ں گا۔ بالآخر حضرت ابودرداء   ؓ نے کھانا تناول کیا۔ جب رات ہوئی تو حضرت ابودرداء  ؓ نمازکےلیے اٹھے توحضرت سلمان  ؓ نے انھیں کہا: سو جاؤ، چنانچہ وہ سو گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اٹھنے لگے تو حضرت سلمان  ؓ نے کہا: ابھی سوئے رہو۔ جب آخر شب ہوئی تو حضرت سلمان  ؓ نے کہا: اب اٹھو، چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ پھر حضرت سلمان  ؓ نے حضرت ابودرداء  ؓ سے کہا: بے شک تم پر تمہارے رب کا بھی حق ہے۔ نیز تمہاری جان اور تمہاری اہلیہ کا بھی تم پر حق ہے۔ لہذا تمھیں سب کے حقوق ادا کرنے چاہیں۔ پھر حضرت ابو درداء  ؓ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے یہ سب معاملہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’سلمان نے سچ کہاہے۔‘‘