تشریح:
(1) قبل ازیں امام بخاری ؒ نے شعبان کے روزوں کو مطلق بیان کیا اور اس عنوان میں روزہ اور حالت افطار کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا تاکہ اس سلسلے میں آپ کا اسوۂ حسنہ بیان کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ ہر اعتبار سے صفات میں اکمل تھے۔ آپ کبھی رات کے اول حصے میں، کبھی درمیان میں اور کبھی رات کے آخری حصے میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ آپ کے روزہ رکھنے کا بھی یہی عالم تھا، یعنی اگر کوئی آپ کو رات کے کسی حصے میں نماز پڑھتے دیکھنا چاہتا یا دن میں روزے کی حالت میں دیکھنا چاہتا تو وہ حسب خواہش آپ کو صائم یا قائم دیکھ لیتا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پے در پے روزے رکھتے یا ساری ساری رات نماز پڑھتے رہتے تھے۔ اگرچہ آپ کو یہ قدرت حاصل تھی لیکن آپ سال بھر نہ تو روزے رکھتے اور نہ ساری ساری رات نماز ہی پڑھتے تھے تاکہ امت کو آپ کی اقتدا کرنے میں تکلیف نہ ہو۔ (2) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ساری رات نماز نہیں پڑھتے تھے، حالانکہ قبل ازیں سیدہ عائشہ ؓ سے مروی حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ جب کوئی کام شروع کرتے یا نماز پڑھنا شروع کرتے تو اس پر دوام کرتے تھے۔ اس سے مراد وہ عبارت ہے جو بطور وظیفہ شروع کرتے، اس پر ہمیشگی کرتے۔ اس سے مطلق نوافل مراد نہیں۔ (فتح الباري:276/4) واللہ أعلم۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے عبادت کرنے میں میانہ روی کو اختیار فرمایا، آپ روزہ رکھتے اور افطار بھی کرتے۔ نماز پڑھتے، آرام بھی فرما لیتے تاکہ عبادات میں لوگ آپ کی اقتدا کر سکیں۔