تشریح:
(1) صیام دہر اور صیام وصال میں فرق یہ ہے کہ جو کوئی روزے رکھے اور درمیانی راتوں میں افطار نہ کرے وہ صیام وصال ہیں اور جو رات کو افطار کر دے اور ہمیشہ روزے رکھے وہ صیام دہر ہیں۔ ایسے شخص کو صائم الدہر کہا جاتا ہے۔ شریعت نے اس قسم کے روزے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے گویا روزہ رکھا ہی نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1979) حضرت عبداللہ بن شخیر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے گویا نہ تو روزہ رکھا اور نہ افطار ہی کیا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:1705) (2) رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تین آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ کی عبادت کو اپنے لیے کم خیال کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا کبھی ترک نہیں کروں گا۔ جب آپ کو اس بات کا علم ہوا تو فرمایا: ’’میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث:5063) (3) جو شخص روزمرہ کے روزے کا عادی ہو جائے تو اس سے روزے کی وہ مشقت ختم ہو جاتی ہے جس پر اس کا ثواب مرتب ہوتا ہے، عبادت تو وہی ہے جو عادت کے خلاف ہو، چنانچہ حضرت عمر ؓ کو ایک ایسے آدمی کے متعلق معلوم ہوا جو ہمیشہ روزے رکھتا تھا، آپ اس پر درہ لہرایا اور فرمایا: اے دہری! کھا۔ (المصنف لابن أبي شیبة:78/3) روایات میں ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابو نعیم ہمیشہ روزے رکھتے تھے۔ حضرت عمرو بن میمون نے کہا: اگر اصحاب محمد ﷺ اسے دیکھ لیتے تو اسے پتھر مار مار کر ختم کر دیتے۔ (فتح الباري:282/4) معلوم ہوا کہ ہمیشہ بلا ناغہ روزے رکھنا مستحسن اقدام نہیں۔ واللہ أعلم