تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ نفلی روزے رکھتے وقت دوسروں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قسم کی عبادات کا پابند بنایا ہے۔ اگر ایک ہی عبادت میں تمام وقت صرف کر دے اور دوسرے حقوق کو پامال کر دے تو ایسا کرنا اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ (2) صحیح مسلم کی روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو مہینے میں تین دن، پھر چھ، پھر نو اس کے بعد بارہ روزے رکھنے کی اجازت دی۔ جب انہوں نے اس سے زیادہ کا اصرار کیا تو آخری حد پندرہ مقرر فرمائی، نیز فرمایا: ’’اس سے زیادہ روزے رکھنا بہتر نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2729(1159)) حضرت داود ؑ کی یہ عادت تھی کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ترک کرتے تھے۔ اتنے روزے رکھنے کے باوجود وہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار نہیں کرتے تھے اور نہ وعدہ خلافی ہی کرتے۔ چونکہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ہمیشہ روزے رکھتے تھے جسے صیام الدہر کہا جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے صیام الدہر کے متعلق فرمایا: ایسا انسان روزے کے ثواب سے محروم رہتا ہے۔ اس مناسبت سے رسول اللہ ﷺ نے ’’ہمیشہ روزے رکھنے‘‘ کا ذکر فرمایا جس کے متعلق حضرت عطاء کو علم نہ ہو سکا اور انہوں نے روایت میں اس کا اظہار فرمایا۔ بہرحال نفلی عبادت کرتے وقت دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ اہل خانہ کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔