باب: لگن‘ پیالے ‘لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو کرنے کے بیان میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To take a bath or perform ablution from a Mikhdab (utensil), a tumbler, or a wooden or stone pot)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
198.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کا وقت ہو گیا تو جس شخص کا گھر قریب تھا وہ تو اپنے گھر (وضو کرنے کے لیے) چلا گیا جبکہ کچھ لوگ باقی رہ گئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک پتھر کا برتن لایا گیا جس میں کچھ پانی تھا۔ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ آپ اس میں اپنی ہتھیلی نہ پھیلا سکے لیکن (اس کے باوجود) سب لوگوں نے اس سے وضو کر لیا۔ حضرت انس ؓ سے پوچھا گیا کہ تم اس وقت کتنے لوگ تھے؟ انھوں نے فرمایا: اَسی (80) سے کچھ زیادہ تھے۔
تشریح:
1۔ عہد رسالت میں مساجد میں وضو کرنے کا دستورنہیں تھا اور نہ مساجد میں پانی وغیرہ کا انتظام ہی ہوتا تھا، اس لیے جن لوگوں کے مکان قریب تھے وہ تو وضو کرنے کے لیے اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے، اسی (80) سے کچھ زیادہ آدمی باقی رہ گئے، انھوں نے نماز کے لیے وضو کرنا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس پتھر کا مخضب (لگن یا ٹب) لایا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک اس میں ڈال دیا۔ پانی میں اس قدر برکت ہوئی کہ انگشت ہائے مبارک سے پانی کے چشمے پھوٹنے لگے۔ اس روایت میں مخضب سے نوع اور (مِن حِجَارَة) سے مادہ کا مسئلہ ثابت ہوا۔ مخضب اگرچہ بڑے برتن کو کہا جاتا ہے، لیکن چھوٹے برتن پر بھی اہل زبان مخضب کا لفظ بول دیتے ہیں، جیسا کہ اس روایت میں ہے۔ ( فتح الباري: 394/1) 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو آپ کے علاوہ اور کسی نبی سے صادر نہیں ہوا، یعنی رسول اللہﷺ کے گوشت اور رگ پٹھوں سے پانی کے چشمے پھوٹنے لگے اور آپ کی انگشت ہائے مبارک سے پانی کا نکلنا بہ نسبت پتھر سے پانی نکلنے کے زیادہ حیران کن ہے جو حضرت موسیٰ کے عصائے مبارک کو پتھر پر مارنے سے جاری ہوا تھا، کیونکہ پتھر سے پانی نکلنا سب کو معلوم ہے، لیکن لحم و دم سے پانی کا پھوٹنا بہت عجیب اور نئی بات ہے۔ اگرچہ احتمال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک کے پانی میں ہونے کی وجہ سے پانی میں خود ہی برکت اوراضافہ ہوا ہو اور دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوا کہ پانی انگلیوں سے نکل رہا ہے، مگر پہلی صورت معجزے کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے، جبکہ آثار واحادیث میں اس کے خلاف کوئی چیز بھی مروی نہیں۔ (فتح الباري: 715/6) 3۔ دور حاضر کے معتزلہ اور خوارج نے حسب عادت اس معجزہ نبوی سے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا ہے۔ اگرچہ کھلے الفاظ میں اس کا اظہارتو نہیں کیا، البتہ احادیث بخاری میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے بھرپور کوشش کی ہے، چنانچہ تدبرحدیث کی آڑ میں اصلاحی صاحب علیہ ما علیہ لکھتے ہیں: ’’ برکت کا میں قائل ہوں۔ انبیاء سے اس طرح کے معجزے ظاہر ہوتے(رہے) ہیں۔ تردد جو ہوتا ہے وہ اس بات میں ہے کہ واقعہ ایک اعجوبہ ہے۔ معجزہ کی حیثیت سے اس کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ دیکھنے والوں کی خاص تعداد ہے۔ لیکن بیان کرنے والے صرف حضرت انسؓ ہیں، کوئی اور صاحب اس کو بیان نہیں کرتے اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ ( تدبرحدیث: 294/1) دراصل ان حضرات کا طریقہ واردات یہ ہے کہ کسی کتاب میں کوئی اعتراض اور اس کا جواب دیکھتے ہیں تو اعتراض کو اچھالنا شروع کردیتے ہیں۔ اس مقام کو لیجیے کہ شارح بخاری ابن بطال نے اپنے انداز میں یہ لکھا کہ اس واقعہ کو ایک جم غفیر نے دیکھا، لیکن روایت کرنے والے صرف حضرت انسؓ ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا بھرپور جواب دیا جس کی وضاحت ہم حدیث :169 میں کرآئے ہیں۔ لیکن ان حضرات کا دجل اور فریب ملاحظہ کریں کہ اعتراض نقل کرکے جواب گول کر دیا۔ اسی طرح رسالہ تدبر کی کسی اشاعت میں حدیث افک پر ان حضرات کی طرف سے بڑے’’وزنی‘‘ اعتراضات شائع ہوئے۔ راقم الحروف نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے ان اعتراضات کو نقل کرکے ایک ایک کا جواب دیا ہے، لیکن ان حضرات کو تواحادیث بخاری میں تشکیک پیدا کرنا مقصود ہے، خواہ جھوٹ اور فریب ہی سے کام لینا پڑے۔ حدیث افک پر ان کے اعتراضات اور ان کے جوابات کتاب المغازی ’’حدیث افک‘‘ کی شرح میں بیان کیے جائیں گے۔ 4۔ حضرت انس ؓ سے مروی یہ معجزہ نبوی دراصل دو واقعات سے متعلق ہے، کیونکہ پانی سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد اورجائے وقوعہ کی تعيین مختلف فیہ ہے، اس لیے ان مختلف روایات کو جمع کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔ حضرت انسؓ سے جب حسن بصریؒ بیان کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی سفر سے متعلق ہے۔ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث :3574) اور جب حضرت انس ؓ سے قتادہ ؓ بیان کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ مدینہ منورہ میں ظاہر ہوا تھا اور وضو کرنے والوں کی تعداد تین صد کے لگ بھگ تھی۔ (فتح الباري: 714/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
195
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
195
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
195
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
195
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وضو اورغسل کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ پانی پاک ہو۔اس کے لیے قطعا ً یہ شرط نہیں کہ پانی کی قسم کے برتن میں ہے اور وہ برتن کس دھات سے بنا ہوا ہے اگربرتن پاک ہے تو اس کا کوئی بھی نام ہو اور کسی بھی دھات سے بنا ہواہو،اس سے وضو اور غسل کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔اس عنوان میں مخصب اور قدح بطور تخصیص نہیں بلکہ نوع کی تعمیم کےلیے بطور مثال ہیں جیسا کہ خشب اور حجارۃ کے الفاظ کو مادہ کی تعمیم کے لیے بطور مثال بیان کیا گیا ہے،یعنی برتن کا نام ٹب،لگن ،لوٹا وغیرہ،پھر وہ لکڑی ،پیتل،پتھر یا کسی اور معدنی دھات کا ہواگر وہ پاک ہے اور تفاخر مقصود نہیں تواس میں پاک پانی سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔اس عنوان کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اسلاف،عبادات کے سلسلے میں تواضع اور عجزوانکسار کا بہت خیال رکھتے تھے،اس لیے وضو اورغسل کے لیے ایسے برتنوں کا انتخاب کرتے جن میں تواضع کا اظہار ہوتا ہو۔اس کےلیے وہ دو چیزوں کا خیال رکھتے:(الف)۔برتن چھوٹا ہو۔(ب)۔مٹی یا پتھر کا بنا ہوا ہو۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تواضع پر عمل کرنا،باعث فضیلت ضرور ہے لیکن جواز کا معاملہ اس سے زیادہ وسیع ہے لہذا وجو یا غسل کے لیے ہرطرح کا اور ہرقسم کا برتن استعمال ہوسکتا ہے،نیز برتن سے وضو کرنے کی دوصورتیں ہیں:(الف)۔ اس میں ہاتھ ڈال کرپانی لیا جائے اور اس سے وضو کیا جائے۔(ب)۔اس برتن کو جھکا کر پانی حاصل کیا جائے اور وضو کیا جائے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں پہلی صورت کو بیان کیا ہے اورآئندہ باب میں دوسری صورت کو بیان کریں گے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کا وقت ہو گیا تو جس شخص کا گھر قریب تھا وہ تو اپنے گھر (وضو کرنے کے لیے) چلا گیا جبکہ کچھ لوگ باقی رہ گئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک پتھر کا برتن لایا گیا جس میں کچھ پانی تھا۔ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ آپ اس میں اپنی ہتھیلی نہ پھیلا سکے لیکن (اس کے باوجود) سب لوگوں نے اس سے وضو کر لیا۔ حضرت انس ؓ سے پوچھا گیا کہ تم اس وقت کتنے لوگ تھے؟ انھوں نے فرمایا: اَسی (80) سے کچھ زیادہ تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ عہد رسالت میں مساجد میں وضو کرنے کا دستورنہیں تھا اور نہ مساجد میں پانی وغیرہ کا انتظام ہی ہوتا تھا، اس لیے جن لوگوں کے مکان قریب تھے وہ تو وضو کرنے کے لیے اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے، اسی (80) سے کچھ زیادہ آدمی باقی رہ گئے، انھوں نے نماز کے لیے وضو کرنا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس پتھر کا مخضب (لگن یا ٹب) لایا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک اس میں ڈال دیا۔ پانی میں اس قدر برکت ہوئی کہ انگشت ہائے مبارک سے پانی کے چشمے پھوٹنے لگے۔ اس روایت میں مخضب سے نوع اور (مِن حِجَارَة) سے مادہ کا مسئلہ ثابت ہوا۔ مخضب اگرچہ بڑے برتن کو کہا جاتا ہے، لیکن چھوٹے برتن پر بھی اہل زبان مخضب کا لفظ بول دیتے ہیں، جیسا کہ اس روایت میں ہے۔ ( فتح الباري: 394/1) 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو آپ کے علاوہ اور کسی نبی سے صادر نہیں ہوا، یعنی رسول اللہﷺ کے گوشت اور رگ پٹھوں سے پانی کے چشمے پھوٹنے لگے اور آپ کی انگشت ہائے مبارک سے پانی کا نکلنا بہ نسبت پتھر سے پانی نکلنے کے زیادہ حیران کن ہے جو حضرت موسیٰ کے عصائے مبارک کو پتھر پر مارنے سے جاری ہوا تھا، کیونکہ پتھر سے پانی نکلنا سب کو معلوم ہے، لیکن لحم و دم سے پانی کا پھوٹنا بہت عجیب اور نئی بات ہے۔ اگرچہ احتمال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک کے پانی میں ہونے کی وجہ سے پانی میں خود ہی برکت اوراضافہ ہوا ہو اور دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوا کہ پانی انگلیوں سے نکل رہا ہے، مگر پہلی صورت معجزے کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے، جبکہ آثار واحادیث میں اس کے خلاف کوئی چیز بھی مروی نہیں۔ (فتح الباري: 715/6) 3۔ دور حاضر کے معتزلہ اور خوارج نے حسب عادت اس معجزہ نبوی سے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا ہے۔ اگرچہ کھلے الفاظ میں اس کا اظہارتو نہیں کیا، البتہ احادیث بخاری میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے بھرپور کوشش کی ہے، چنانچہ تدبرحدیث کی آڑ میں اصلاحی صاحب علیہ ما علیہ لکھتے ہیں: ’’ برکت کا میں قائل ہوں۔ انبیاء سے اس طرح کے معجزے ظاہر ہوتے(رہے) ہیں۔ تردد جو ہوتا ہے وہ اس بات میں ہے کہ واقعہ ایک اعجوبہ ہے۔ معجزہ کی حیثیت سے اس کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ دیکھنے والوں کی خاص تعداد ہے۔ لیکن بیان کرنے والے صرف حضرت انسؓ ہیں، کوئی اور صاحب اس کو بیان نہیں کرتے اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ ( تدبرحدیث: 294/1) دراصل ان حضرات کا طریقہ واردات یہ ہے کہ کسی کتاب میں کوئی اعتراض اور اس کا جواب دیکھتے ہیں تو اعتراض کو اچھالنا شروع کردیتے ہیں۔ اس مقام کو لیجیے کہ شارح بخاری ابن بطال نے اپنے انداز میں یہ لکھا کہ اس واقعہ کو ایک جم غفیر نے دیکھا، لیکن روایت کرنے والے صرف حضرت انسؓ ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا بھرپور جواب دیا جس کی وضاحت ہم حدیث :169 میں کرآئے ہیں۔ لیکن ان حضرات کا دجل اور فریب ملاحظہ کریں کہ اعتراض نقل کرکے جواب گول کر دیا۔ اسی طرح رسالہ تدبر کی کسی اشاعت میں حدیث افک پر ان حضرات کی طرف سے بڑے’’وزنی‘‘ اعتراضات شائع ہوئے۔ راقم الحروف نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے ان اعتراضات کو نقل کرکے ایک ایک کا جواب دیا ہے، لیکن ان حضرات کو تواحادیث بخاری میں تشکیک پیدا کرنا مقصود ہے، خواہ جھوٹ اور فریب ہی سے کام لینا پڑے۔ حدیث افک پر ان کے اعتراضات اور ان کے جوابات کتاب المغازی ’’حدیث افک‘‘ کی شرح میں بیان کیے جائیں گے۔ 4۔ حضرت انس ؓ سے مروی یہ معجزہ نبوی دراصل دو واقعات سے متعلق ہے، کیونکہ پانی سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد اورجائے وقوعہ کی تعيین مختلف فیہ ہے، اس لیے ان مختلف روایات کو جمع کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔ حضرت انسؓ سے جب حسن بصریؒ بیان کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی سفر سے متعلق ہے۔ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث :3574) اور جب حضرت انس ؓ سے قتادہ ؓ بیان کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ مدینہ منورہ میں ظاہر ہوا تھا اور وضو کرنے والوں کی تعداد تین صد کے لگ بھگ تھی۔ (فتح الباري: 714/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن بکر سے سنا، کہا ہم کو حمید نے یہ حدیث بیان کی۔ انھوں نے انس سے نقل کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) نماز کا وقت آ گیا، تو جس شخص کا مکان قریب ہی تھا وہ وضو کرنے اپنے گھر چلا گیا اور کچھ لوگ (جن کے مکان دور تھے) رہ گئے۔ تو رسول کریم ﷺ کے پاس پتھر کا ایک لگن لایا گیا۔ جس میں کچھ پانی تھا اور وہ اتنا چھوٹا تھا کہ آپ اس میں اپنی ہتھیلی نہیں پھیلا سکتے تھے۔ (مگر) سب نے اس برتن کے پانی سے وضو کر لیا، ہم نے حضرت انس ؓ سے پوچھا کہ تم کتنے نفر تھے؟ کہا اسی (80) سے کچھ زیادہ ہی تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہ رسول کریم ﷺ کا معجزہ تھا کہ اتنی قلیل مقدار سے اتنے لوگوں نے وضو کرلیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): It was the time for prayer, and those whose houses were near got up and went to their people (to perform ablution), and there remained some people (sitting). Then a painted stove pot (Mikhdab) containing water was brought to Allah's Apostles The pot was small, not broad enough for one to spread one's hand in; yet all the people performed ablution. (The sub narrator said, "We asked Anas (RA), 'How many persons were you?' Anas (RA) replied 'We were eighty or more"). (It was one of the miracles of Allah's Apostle) (ﷺ) .