تشریح:
1۔ مخضب (ٹب یا لگن) ایک کھلے برتن کو کہتے ہیں جس میں کپڑے وغیرہ دھوئے جاتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کامقصود یہ ہے کہ اس قسم کے کھلے برتنوں میں بیٹھ کر غسل کرنے میں کوئی قباحت نہیں، اگرچہ اس میں استعمال شدہ پانی کے قطرے گرتے رہتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک وضو اور غسل کے لیے پانی کا پاک ہونا ضروری ہے۔ برتنوں کے متعلق کوئی پابندی نہیں، تمام برتن قابل استعمال ہیں۔
2۔ رسول اللہ ﷺ کو سہارا دے کر لانے کے متعدد واقعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سہارا دینے والوں کے مختلف نام احادیث میں ذکر ہوئے ہیں، مثلاً: ام ایمن، بریرہ، نوبہ (حبشی غلام) ، فضل بن عباس ؓ ، اسامہ، علی بن ابی طالب اورحضرت عباس ؓ لیکن ان میں حضرت علی ؓ اورحضرت عباس ؓ پیش پیش تھے، چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کرگئی تو آپ کی خواہش کے پیش نظر حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کے سہارے آپ کو حضرت عائشہ ؓ کے گھر لایا گیا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 665) اس وقت ام ایمن ؓ ، حضرت اسامہ ؓ اور حضرت فضل بن عباس نے بھی آپ کو سہارا دینے کی خدمات سرانجام دیں۔ پھر حضرت عائشہ ؓ کے گھر آنے کے بعد بیماری میں کچھ افاقہ ہوا تو نمازظہر کی ادائیگی کے لیے حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز حضرت ابوبکر ؓ کے پہلو میں بائیں جانب بیٹھ کر اد اکی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 687) بعض روایات میں ہے کہ حضرت بریرہ اور نوبہ (حبشی غلام) کے سہارے برآمد ہوئے۔ غالباً انھوں نے گھر سے مسجد تک آپ کو سہارا دیا۔ پھر مسجد سے جائے نماز تک حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ نے سہارا دینے کی خدمات سرانجام دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ واقعہ افک میں حضرت علی ؓ کے جو تاثرات تھے۔ اس کی وجہ سے صدیقہ کائنات ؓ کے دل میں بشری تقاضے کے مطابق شکر رنجی ضرورتھی۔ اس کا اظہار اس صورت میں ہوا کہ آپ نے حضرت علی ؓ کا نام نہیں لیا، جیسا کہ روایت میں وضاحت ہے۔ اس کے متعلق جو تاویلات کی جاتی ہیں، ان پر دل مطمئن نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ( فتح الباري: 203/2)
3۔ دوران مرض میں رسول الله ﷺ کے غسل کرنے کے بھی متعدد واقعات ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف لے آئے تو عشاء کے وقت آپ نے دریافت فرمایا کہ آیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ عرض کیا گیا کہ وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ پھر حسب ارشاد ٹب میں پانی بھرا گیا، آپ نے غسل فرمایا۔ جب مسجد میں جانے لگے تو آپ بے ہوش ہو گئے، تین دفعہ ایسا ہوا۔ پھر آپ نے حضرت بلال ؓ کو بھیجا کہ ابوبکر ؓ نماز پڑھائیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 687) پھر آپ نے ہفتہ یا اتوار کو سات مشکیں پانی کی لانے کے متعلق فرمایا، جیسا کہ حدیث الباب (198) میں ہے۔ آپ نے غسل فرمایا، پھر نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز ادا کی اورلوگوں کو وعظ ونصیحت فرمائی، جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4442) انہی دنوں جمعرات کےدن واقعہ قرطاس پیش آیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4431) اس کی وضاحت ہم حدیث نمبر۔ 114 کے تحت کر آئے ہیں۔
4۔ احادیث بخاری کے متعلق تشکیک پیدا کرنے کے لیے اصلاحی صاحب نے اس موقع پر بھی زہر اگلا ہے۔ امام زہریؒ کے متعلق ان کے خیالات ملاحظہ فرمائیں: ’’ میرے نزدیک حدیث قرطاس زہری کا پھیلایا ہوا فتنہ ہے۔ یہ روایت (198) بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں پورا زہر موجود ہے۔ حدیث قرطاس میں زہری کا ہدف حضرت عمر ؓ ہیں۔ یہاں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے خلاف زہر اگلا گیا ہے۔ اس روایت میں مشکوں کا پانی مریض پر بہانے کا ٹونا بیان ہوا ہے، یہ بھی زہری کی حاشیہ آرائی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ عوامی خرافات کو دین بنا کر پیش کرنے میں بھی زہری کا بڑاحصہ ہے۔ ‘‘ ( تدبرحدیث:297/1) امام زہری ؒ حضرت امام مالک ؒ کے استاد اورامام بخاری ؒ کے نزدیک انتہائی قابل اعتماد شخصیت ہیں۔ محدثین عظام نے ان کے متعلق بہت اچھے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ علمی بنیادوں پر کسی شخصیت سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن بھونڈے انداز سے کسی پر کیچڑ اچھالنا بھلے مانس لوگوں کا کام نہیں۔ حضرت اصلاحی تو اللہ کے پاس اپنے کیے ہوئے کا پھل پا رہے ہوں گے، ہمارا ان کے متبعین سے سوال ہے کہ اسلاف کے متعلق اظہار خیالات کا یہی انداز ہونا چاہیے جو اصلاحی صاحب نے اختیار کیا ہے؟ حافط ابن حجر ؒ نے امام زہری ؒ کے متعلق پورے چار صفحات پر مشتمل ان کی ثقاہت کو بیان فرمایا ہے۔ فرماتےہیں: امام زہری ؒ بڑے بڑے ائمہ کرام میں سے ایک اور شام اورحجاز کے عالم حدیث ہیں۔ آپ نے پندرہ سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے علم حدیث روایت کیا ہے۔ حضرت لیث کہتے ہیں: میں نےامام زہری ؒ سے زیادہ علم حدیث رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ فرماتے ہیں: امام زہری ؒ کی صحبت اختیار کرو، کیونکہ سنت کا علم ان سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا۔ (تهذیب التهذیب: 397/1) لیکن اصلاحی صاحب نے ان سےمروی احادیث کو عوامی خرافات کا نام دیا ہے۔ مزید لکھا ہے: ’’زہری ؒ کے متعلق بدگمانی ان کے زمانے میں بھی پائی جاتی تھی۔ آخر لوگ اتنے نابالغ تو نہ تھے کہ وہ کسی کی شرارت پر متنبہ نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مالک ؒ جیسے بڑے آدمی کو بھی کئی روایات میں زہری کا نام حذف کرکے یہ کہنا پڑا کہ یہ روایت اس شخص کی ہے جس پر مجھے اعتماد ہے۔‘‘ ( تدبرحدیث: 297/1) امام مالک ؒ جیسے بڑے شخص کو تو اپنے شیخ پر پورا پورا اعتماد تھا، لیکن آپ حضرات ان پر بداعتمادی کا اظہار کر کے احادیث کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں۔ احادیث کے متعلق جو خطرناک راستہ اصلاحی صاحب نے اختیار کیا ہے وہ یقیناً ان کی باقیات سئیات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اصلاحی صاحب کو سات مشکیزے پانی لانے اورانھیں رسول اللہ ﷺ پر بہانے کے متعلق اعتراض ہے جسے انھوں نے عوامی خرافات کا نام دیا ہے۔ حالانکہ انھیں علم ہے کہ شریعت میں سات کی تعداد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، مثلاً: 1۔ آسمانوں کی تعداد سات ہے۔ 2۔ ہفتہ کے دن بھی سات ہیں۔ 3۔ اعضائے سجدہ بھی سات ہیں۔ 4۔ ایک طواف بیت اللہ کے اردگرد سات چکر لگانے سے پورا ہوتا ہے۔ 5۔ رمی جمرات کے لیے بھی سات کنکریاں استعمال ہوتی ہیں۔ 6۔ سعی کے لیے بھی صفا اورمرہ کے درمیان سات دفعہ آنا جانا پڑتاہے۔ 7۔ صبح صبح سات عجوہ کھجوریں کھانے سے انسان جادو اور زہر سے محفوظ رہتاہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5769) حضرت اصلاحی نے صحیح بخاری کی احادیث کو عوامی خرافات کا نام دیا ہے تاکہ لوگوں کے د لوں میں ان کے متعلق نفرت پیدا ہو، خاص طور پر امام زہری پر بد اعتمادی کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے: ’’اس کی مثالیں موطأ میں ’’العین حق‘‘ والی روایت اور سانپ نکالنے کی روایت میں موجود ہیں۔‘‘ ( تدبرحدیث :297/1) جن روایات کی طرف اصلاحی صاحب نے اشارہ کیا ہے اور انھیں عوامی خرافات سے تعبیر کیا ہے، ان میں پہلی روایت مسند احمد، سنن نسائی اور صحیح ابن حبان میں ہے کہ سہل بن حنیف ؓ کو عامر بن ربیعہ کی نظر لگ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عامر بن ربیعہ ؓ کو ہاتھ ، چہرہ، کہنیاں اور پاؤں کے اطراف، نیز داخلۃ الازار، یعنی تہ بند کے اندر کا بدن، ایک پیالے میں دھونے کا حکم دیا اور اسے سہل بن حنیف کے بدن پر بہا دیا گیا، اس طرح نظر بد کے اثرات ختم ہوگئے، موطأ امام مالک ؒ (الموطأ لإمام مالك: 116/2، طبع مؤسسة الرسالة) میں اس کی سند یوں ہے: (قال مالك عن محمد بن أبي أمامة ابن سهل) اس میں زہری ؒ کا نام نہیں۔ اسی طرح دوسری روایت (جو صحیح مسلم اور موطا وغیرہ میں ہے) جس میں ایک نوجوان کا ذکر ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے کر اپنے گھر آیا اور گھر میں سانپ دیکھ کر اسے نیزہ مارا، اس کی بیوی کا بیان ہے کہ مجھے پتہ نہیں چلا کہ پہلے میرا خاوند فوت ہوا یا سانپ پہلے مرا؟ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب گھرمیں سانپ نظر آئے تو اسے تین مرتبہ گھر سے نکل جانے کا حکم دو۔ اگرچلا جائے تو ٹھیک، بصورت دیگر اسے قتل کردو۔‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5839(2236) والموطأ للإمام مالك: 155، 156/2، طبع مؤسسة الرسالة) موطا امام مالک ؒ میں جو روایت ہے اسکی سند میں بھی زہری کا نام نہیں۔ لیکن جو انسان کسی کی مخالفت میں اندھا بہرہ ہوجاتا ہے، اسے ہر جگہ مخالف ہی نظر آتا ہے۔ اصلاحی صاحب نے امام زہری ؒ کی عوامی خرافات کے سلسلے میں ان دو روایات کا حوالہ دیا ہے، لیکن ان میں دور دورتک زہری کانشان تک نہیں ملتا۔ دراصل ان کےنزدیک کسی حدیث کے صحیح وضعیف ہونے کا مدار ان کی عقل پر ہے۔ اگران کی عقل فیصلہ کردے تو صحیح بصورت دیگر وہ ناقابل اعتبار ہے، خواہ بیان کرنے والے کتنے بڑے امام اور ثقات ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی وجہ سے ہم نے انھیں دورحاضر کے معتزلہ اورخوارج کا نام دیا ہے، کیونکہ ان کے ہاں بھی حدیث جانچنے کا یہی میعار تھا۔
نوٹ:۔ رسول اللہ ﷺ بیماری کی شدت کے بعد پانچ دن تک مسجد میں تشریف نہیں لے گئے، صرف نماز ظہر پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ حضرت ام فضل ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید مغرب کی نماز بھی آپ نے مسجد میں ادا کی ہے، لیکن سنن نسائی میں وضاحت ہے کہ آپ نے یہ نماز گھر میں ادا کی تھی اور اس میں سورہ مرسلات کی تلاوت فرمائی تھی۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 986) شدت بیماری کے پہلے دن نماز عشاء کے وقت مسجد میں جانے کے لیے غسل فرمایا، لیکن بے ہوشی کی وجہ سے نہ جا سکے، حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ جمعرات کے دن واقعہ قرطاس پیش آیا۔ اس کے بعد ہفتہ یا اتوار نماز ظہر مسجد میں ادا کی۔ پیر کے دن پردہ اٹھا کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نماز باجماعت ادا کرتے ہوئے دیکھا تو خوش ہوئے اور مسکرائے، پھر پردہ ڈال دیا اور ظہر سے پہلے پہلے جان، جان آفرین کے حوالے کردی۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔ جمعے کے سلسلے میں تلاش بسیار کے باوجود کوئی روایت نہیں مل سکی کہ شدت بیماری کے دوران میں جمعہ کس نے پڑھایا؟ اگر کوئی صاحب علم اس کےمتعلق آگاہ ہو تو ہمیں مطلع فرماکر عند اللہ ماجور ہو۔