تشریح:
(1) امام مالک سے منقول ہے، فرماتے ہیں: میں نے کسی کو جمعہ کا روزہ رکھنے سے منع کرتے نہیں سنا، جمعہ کا روزہ اچھا ہے۔ اگر امام مالک کو مذکورہ حدیث پہنچتی تو وہ اس کی مخالفت نہ کرتے۔ بہرحال انفرادی طور پر جمعہ کا روزہ رکھنا منع ہے۔ اس کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ جمعہ کا دن دعا، ذکر اور عبادت کا دن ہے۔ اس میں غسل وغیرہ کیا جاتا ہے اور خطبہ سنا جاتا ہے، اس لیے افطار کرنے سے مذکورہ امور میں مدد ملتی ہے اور آسانی سے انہیں سرانجام دیا جا سکتا ہے، نیز صرف جمعہ کا روزہ رکھنے میں اس کی تعظیم میں مبالغے کا اندیشہ ہے کیونکہ یہودی جس دن اپنی عبادت گاہوں میں جمع ہوتے صرف اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور ہمیں ان کی مخالفت کا حکم ہے۔ حدیث میں ہے: دوسرے دنوں میں جمعہ کا دن روزے کے لیے خاص نہ کرو الا یہ کہ جمعہ ایسے دن میں آ جائے کہ اس میں کوئی پہلے ہی سے روزہ رکھتا ہو۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2684(1144)) بعض لوگ کہتے ہیں: جمعے کا دن روزے کے لیے مختص کر لینا اس لیے منع ہے کہ جمعہ کے دن کو عید کہا گیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جمعہ کا دن تمہاری عید کا دن ہے۔‘‘ (مسندأحمد:532/2) اور عید کے دن بالاتفاق روزہ رکھنا منع ہے، تاہم جمعہ اور عید میں فرق یہ ہے کہ عید کے دن بہرصورت روزہ رکھنا منع ہے جبکہ جمعہ کے دن ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں روزہ رکھنے سے اس دن روزہ رکھنا جائز ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے تین احادیث پیش کی ہیں۔ پہلی دو احادیث میں کچھ اجمال ہے مگر تیسری حدیث میں پوری تفصیل موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن اگر روزہ رکھنا ہو تو ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھا جائے۔ صحیح مسلم میں اس کے متعلق مزید تفصیل ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جمعہ کی رات عبادت کے لیے اور دن روزے کے لیے خاص نہ کرو الا یہ کہ ایسا روزہ جمعہ کے دن آ جائے جسے وہ پہلے سے رکھتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2684(1144)) (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: عرفہ کا روزہ جمعہ کے دن آ جائے یا نذر وغیرہ کا ہو، مثلاً: مریض کی شفا یا گمشدہ کی بازیابی کی نذر ہو اور وہ جمعہ کے دن آ جائے تو اس دن روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:297/4)