باب: لگن‘ پیالے ‘لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو کرنے کے بیان میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To take a bath or perform ablution from a Mikhdab (utensil), a tumbler, or a wooden or stone pot)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
199.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے ایک بڑا پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ آپ نے اس میں ہاتھ منہ دھوئے اور اس میں کلی فرمائی۔
تشریح:
اس روایت میں ’’قدح‘‘ کا ذکر ہے جو لکڑی کے بنے ہوئے پیالے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس میں دست مبارک اور چہرے کو دھویا اور کلی کی۔ اگرچہ اس حدیث میں وضو کا ذکر نہیں، تاہم ہاتھ منہ دھونا اور کلی کرنا وضو کے اعمال ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ نے مکمل وضو کیا ہو، لیکن راوی نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ بہرحال امام بخاری ؒ اس روایت سے قدح میں وضو کرنا ثابت کرتے ہیں۔ اس لیے نوعیت اور مادہ دونوں چیزوں پر اس روایت سے استدلال ہو گیا۔ یہ روایت پہلے بھی گزر چکی ہے، اس سے متعلقہ فوائد حدیث: 188 میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
196
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
196
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
196
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
196
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وضو اورغسل کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ پانی پاک ہو۔اس کے لیے قطعا ً یہ شرط نہیں کہ پانی کی قسم کے برتن میں ہے اور وہ برتن کس دھات سے بنا ہوا ہے اگربرتن پاک ہے تو اس کا کوئی بھی نام ہو اور کسی بھی دھات سے بنا ہواہو،اس سے وضو اور غسل کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔اس عنوان میں مخصب اور قدح بطور تخصیص نہیں بلکہ نوع کی تعمیم کےلیے بطور مثال ہیں جیسا کہ خشب اور حجارۃ کے الفاظ کو مادہ کی تعمیم کے لیے بطور مثال بیان کیا گیا ہے،یعنی برتن کا نام ٹب،لگن ،لوٹا وغیرہ،پھر وہ لکڑی ،پیتل،پتھر یا کسی اور معدنی دھات کا ہواگر وہ پاک ہے اور تفاخر مقصود نہیں تواس میں پاک پانی سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔اس عنوان کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اسلاف،عبادات کے سلسلے میں تواضع اور عجزوانکسار کا بہت خیال رکھتے تھے،اس لیے وضو اورغسل کے لیے ایسے برتنوں کا انتخاب کرتے جن میں تواضع کا اظہار ہوتا ہو۔اس کےلیے وہ دو چیزوں کا خیال رکھتے:(الف)۔برتن چھوٹا ہو۔(ب)۔مٹی یا پتھر کا بنا ہوا ہو۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تواضع پر عمل کرنا،باعث فضیلت ضرور ہے لیکن جواز کا معاملہ اس سے زیادہ وسیع ہے لہذا وجو یا غسل کے لیے ہرطرح کا اور ہرقسم کا برتن استعمال ہوسکتا ہے،نیز برتن سے وضو کرنے کی دوصورتیں ہیں:(الف)۔ اس میں ہاتھ ڈال کرپانی لیا جائے اور اس سے وضو کیا جائے۔(ب)۔اس برتن کو جھکا کر پانی حاصل کیا جائے اور وضو کیا جائے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں پہلی صورت کو بیان کیا ہے اورآئندہ باب میں دوسری صورت کو بیان کریں گے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے ایک بڑا پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ آپ نے اس میں ہاتھ منہ دھوئے اور اس میں کلی فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں ’’قدح‘‘ کا ذکر ہے جو لکڑی کے بنے ہوئے پیالے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس میں دست مبارک اور چہرے کو دھویا اور کلی کی۔ اگرچہ اس حدیث میں وضو کا ذکر نہیں، تاہم ہاتھ منہ دھونا اور کلی کرنا وضو کے اعمال ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ نے مکمل وضو کیا ہو، لیکن راوی نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ بہرحال امام بخاری ؒ اس روایت سے قدح میں وضو کرنا ثابت کرتے ہیں۔ اس لیے نوعیت اور مادہ دونوں چیزوں پر اس روایت سے استدلال ہو گیا۔ یہ روایت پہلے بھی گزر چکی ہے، اس سے متعلقہ فوائد حدیث: 188 میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن العلاء نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے، وہ ابوموسیٰ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک پیالہ منگایا جس میں پانی تھا۔ پھر اس میں آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو دھویا اور اسی میں کلی کی۔
حدیث حاشیہ:
گو اس حدیث میں وضو کرنے کا ذکر نہیں۔ مگر منہ ہاتھ دھونے کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے پورا ہی وضو کیا تھا اور راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ باب کا مطلب نکلنا ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): Once the Prophet (ﷺ) asked for a tumbler containing water. He washed his hands and face in it and also threw a mouthful of water in it.