باب: لگن‘ پیالے ‘لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو کرنے کے بیان میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To take a bath or perform ablution from a Mikhdab (utensil), a tumbler, or a wooden or stone pot)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
200.
حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو ہم نے آپ کے لیے ایک طشت میں پانی پیش کیا جو پیتل کا بنا ہوا تھا۔ آپ نے وضو فرمایا، یعنی تین بار منہ دھویا، دو، دو بار اپنے ہاتھ دھوئے۔ پھر اپنے سر کا اس طرح مسح کیا کہ آگے سے پیچھے اور پیچھے سے آگے لائے۔ آخر میں آپ نے اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
تشریح:
1۔ یہ حدیث پہلے گزرچکی ہے۔ اس روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ جس طشت میں آپ کو وضو کے لیے پانی پیش کیا گیا وہ پیتل کا تھا۔ امام بخاری ؒ کاموقف یہ ہے کہ وضو کے متعلق برتن کی کوئی پابندی نہیں کہ کس نوعیت کا ہے اور کس قسم کی دھات سے بنا ہوا ہے۔ صرف پانی کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اگرچہ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ سے اس قسم کے برتنوں میں وضو کرنے کی کراہت مروی ہے۔ 2۔ حضرت ابن عمر ؓ پتھر، لکڑی کے برتنوں اورچمڑے کے مشکیزے سے وضو نہیں کرتے تھے، لیکن ہمارے لیے اسوہ حسنہ تو رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپ سے اس قسم کی پابندی مروی نہیں۔ ممکن ہے حضرت ابن عمر ؓ اس لیے ناپسند کرتے ہوں کہ سونے چاندی کی طرح یہ بھی معدنیات سے ہے، البتہ حافظ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ میں نے ایک روایت بھی دیکھی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ اس قسم کے برتنوں میں وضو کرلیتے تھے۔ (شرح ابن بطال: 299/1) 3۔ سونے چاندی کےبرتنوں میں رسول اللہ ﷺ نے کھانے پینے سے منع فرمایا ہے، اس لیے ہمارے اسلاف اس قسم کی قیمتی دھاتوں کے برتنوں میں وضو کو ناپسند کرتے تھے۔ ویسے بھی وضو کے لیے قیمتی برتنوں کے استعمال میں تفاخر کا اظہارہوتا ہے، لہٰذا ان سے پر ہیز کرنا چاہیے۔ (عمدۃ القاري:556/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
197
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
197
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
197
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
197
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وضو اورغسل کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ پانی پاک ہو۔اس کے لیے قطعا ً یہ شرط نہیں کہ پانی کی قسم کے برتن میں ہے اور وہ برتن کس دھات سے بنا ہوا ہے اگربرتن پاک ہے تو اس کا کوئی بھی نام ہو اور کسی بھی دھات سے بنا ہواہو،اس سے وضو اور غسل کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔اس عنوان میں مخصب اور قدح بطور تخصیص نہیں بلکہ نوع کی تعمیم کےلیے بطور مثال ہیں جیسا کہ خشب اور حجارۃ کے الفاظ کو مادہ کی تعمیم کے لیے بطور مثال بیان کیا گیا ہے،یعنی برتن کا نام ٹب،لگن ،لوٹا وغیرہ،پھر وہ لکڑی ،پیتل،پتھر یا کسی اور معدنی دھات کا ہواگر وہ پاک ہے اور تفاخر مقصود نہیں تواس میں پاک پانی سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔اس عنوان کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اسلاف،عبادات کے سلسلے میں تواضع اور عجزوانکسار کا بہت خیال رکھتے تھے،اس لیے وضو اورغسل کے لیے ایسے برتنوں کا انتخاب کرتے جن میں تواضع کا اظہار ہوتا ہو۔اس کےلیے وہ دو چیزوں کا خیال رکھتے:(الف)۔برتن چھوٹا ہو۔(ب)۔مٹی یا پتھر کا بنا ہوا ہو۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تواضع پر عمل کرنا،باعث فضیلت ضرور ہے لیکن جواز کا معاملہ اس سے زیادہ وسیع ہے لہذا وجو یا غسل کے لیے ہرطرح کا اور ہرقسم کا برتن استعمال ہوسکتا ہے،نیز برتن سے وضو کرنے کی دوصورتیں ہیں:(الف)۔ اس میں ہاتھ ڈال کرپانی لیا جائے اور اس سے وضو کیا جائے۔(ب)۔اس برتن کو جھکا کر پانی حاصل کیا جائے اور وضو کیا جائے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں پہلی صورت کو بیان کیا ہے اورآئندہ باب میں دوسری صورت کو بیان کریں گے۔
حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو ہم نے آپ کے لیے ایک طشت میں پانی پیش کیا جو پیتل کا بنا ہوا تھا۔ آپ نے وضو فرمایا، یعنی تین بار منہ دھویا، دو، دو بار اپنے ہاتھ دھوئے۔ پھر اپنے سر کا اس طرح مسح کیا کہ آگے سے پیچھے اور پیچھے سے آگے لائے۔ آخر میں آپ نے اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ حدیث پہلے گزرچکی ہے۔ اس روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ جس طشت میں آپ کو وضو کے لیے پانی پیش کیا گیا وہ پیتل کا تھا۔ امام بخاری ؒ کاموقف یہ ہے کہ وضو کے متعلق برتن کی کوئی پابندی نہیں کہ کس نوعیت کا ہے اور کس قسم کی دھات سے بنا ہوا ہے۔ صرف پانی کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اگرچہ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ سے اس قسم کے برتنوں میں وضو کرنے کی کراہت مروی ہے۔ 2۔ حضرت ابن عمر ؓ پتھر، لکڑی کے برتنوں اورچمڑے کے مشکیزے سے وضو نہیں کرتے تھے، لیکن ہمارے لیے اسوہ حسنہ تو رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپ سے اس قسم کی پابندی مروی نہیں۔ ممکن ہے حضرت ابن عمر ؓ اس لیے ناپسند کرتے ہوں کہ سونے چاندی کی طرح یہ بھی معدنیات سے ہے، البتہ حافظ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ میں نے ایک روایت بھی دیکھی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ اس قسم کے برتنوں میں وضو کرلیتے تھے۔ (شرح ابن بطال: 299/1) 3۔ سونے چاندی کےبرتنوں میں رسول اللہ ﷺ نے کھانے پینے سے منع فرمایا ہے، اس لیے ہمارے اسلاف اس قسم کی قیمتی دھاتوں کے برتنوں میں وضو کو ناپسند کرتے تھے۔ ویسے بھی وضو کے لیے قیمتی برتنوں کے استعمال میں تفاخر کا اظہارہوتا ہے، لہٰذا ان سے پر ہیز کرنا چاہیے۔ (عمدۃ القاري:556/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن زید سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (ہمارے گھر) تشریف لائے، ہم نے آپ ﷺ کے لیے تانبے کے برتن میں پانی نکالا۔ (اس سے) آپ ﷺ نے وضو کیا۔ تین بار چہرہ دھویا، دو دو بار ہاتھ دھوئے اور سر کا مسح کیا۔ (اس طرح کہ) پہلے آگے کی طرف (ہاتھ) لائے۔ پھر پیچھے کی جانب لے گئے اور پیر دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ تانبے کے برتن میں پانی لے کر اس سے وضو کرنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Zaid (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) came to us and we brought out water for him in a brass pot. He performed ablution thus: He washed his face thrice, and his forearms to the elbows twice, then passed his wet hands lightly over the head from front to rear and brought them to front again and washed his feet (up to the ankles).