تشریح:
(1) امام بخاری ؓ نے اس حدیث سے عورتوں کے لیے اعتکاف کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے، نیز انہوں نے ثابت کیا ہے کہ عورتوں کے لیے اعتکاف کا اہتمام بھی مسجد میں ہونا چاہیے کیونکہ اگر گھر میں اعتکاف جائز ہوتا تو آپ انہیں اپنے اپنے گھروں میں اعتکاف کرنے کا حکم دے دیتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس رمضان اعتکاف کا پروگرام ہی ختم کر دیا حتی کہ شوال میں اس کی قضا دی اور دس دنوں کا اعتکاف کیا۔ (2) عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنے کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں: ٭ عورتوں کے لیے مردوں سے بایں طور الگ انتظام ہو کہ مردوں کے ساتھ اختلاط کا قطعاً کوئی امکان باقی نہ رہے کیونکہ اختلاط مرد و زن کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے پسند نہیں کیا۔ ٭ خاوند یا سرپرست سے اعتکاف بیٹھنے کی اجازت حاصل کی جائے بصورت دیگر اعتکاف صحیح نہیں ہو گا بلکہ بلا اجازت اعتکاف سے ثواب کے بجائے گناہ کا اندیشہ ہے۔ ٭ بحالت اعتکاف مخصوص ایام کے آ جانے کا بھی اندیشہ نہ ہو۔ ہر عورت کو اپنی عادت کا علم ہوتا ہے، اسے اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا ہو گا۔ ٭ کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو۔ بصورت دیگر وہ اپنے گھر میں عبادت کرنے کا اہتمام کرے لیکن گھر میں عبادت کرنا شرعی اعتکاف نہیں۔ ٭ خورد و نوش اور دیگر لوازمات زندگی کا باقاعدہ انتظام ہوتا کہ باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ مرد حضرات تو بوقت ضرورت مسجد سے باہر جا سکتے ہیں لیکن عورتوں کے لیے ایسی اجازت فتنے کا باعث ہے۔ ٭ جو عورتیں اعتکاف کریں انہیں تفریح طبع کے سامان سے اجتناب کرنا ہو گا، اسی طرح اپنے ہمراہ موبائل رکھنا جس سے گھر والوں سے ہر وقت رابطہ رہے، اعتکاف کے منافی ہے۔ (3) بعض حضرات اس حدیث سے عورتوں کے لیے سنت اعتکاف غیر مشروع ہونے کا مسئلہ کشید کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اعتکاف سے منع کر دیا تھا، حالانکہ منع کرنے کی درج ذیل وجوہات تھیں: ٭ آپ کو خدشہ لاحق ہوا کہ یہ سوکنوں کی باہمی غیرت کی وجہ سے ایسا کر رہی ہیں۔ اس طرح ریاکاری سے مقصد اعتکاف ختم ہونے کا اندیشہ تھا۔ ٭ اعتکاف میں تنہائی مقصود ہوتی ہے، جب ازواج مطہرات نے وہاں خیمے گاڑ لیے تو گھر والی صورت حال ہو گئی، اس لیے آپ نے انہیں منع کر دیا۔ یہ خدشہ لاحق ہوا کہ ان کی دیکھا دیکھی باقی ازواج مطہرات بھی مسجد میں اپنے اپنے خیمے نصب کر لیں گی جس سے جگہ تنگ ہو جائے گی اور نمازیوں کو تکلیف ہو گی، اس لیے انہیں منع فرما دیا۔ (فتح الباري:351/4)